فضایل صدقات میں موجود ایک مکتوب میں حضرت رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ اپنے شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ
سے بات کرتے ہوئے آخر میں اللہ تعالیٰ عز وجل شانہ سے مخاطب ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں "تیرا ہی وجود ہے میں کیا
ہوں کچھ نہیں ہوںاور وہ جو میں ہوں وہ تو ہے اور میں اور تو خود شرک در شرک ہیں"(فضایل صدقات صفحہ )558
اب اگر یہ عبارت حقیقاًاور ظاہری طور پر واقعتاً ایسی ہی ہوتی تو شرک ہوتی۔لیکن یہ خط جسکی یہ عبارت ہے اس
عبارت کو مکاتیب رشیدیہ سے لے کر کے فضایل صدقات میں نقل کیا گیا ہے آپ اوپر اسکین میں صاف طور سے دیکھ سکتے ہیں مکاتیب رشیدیہ کے اس اسکین مین یہ عبارت اس طرح نہیں ہے جیسا کہ فضا یل صدقات میں نقل ہوا ہے یہاں پر الفاظ اس عبارت کے اس طرح ہے
"تیرا ہی وجود ہے ،میں کیا ہوں کچھ نہیں ہوں،اور وہ جو میں ہے وہ تو ہےاور میں اورتو خود شرک در شرک ہے
(مکاتیب رشیدیہ قدیم صفحہ 10 مکتوب 13 )
(مکاتیب رشیدیہ جدید صفحہ 36 مکتوب 13 )
اسی جدید ایڈیشن کی اسکین اوپر لگی ہوئی ہے۔اس عبارت میں مَیں سے مراد حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی ذات نہیں ہے بلکہ مَیں سے مراد تکبر ہے۔۔۔ جیسا کہ اللہ والے کہتے ہیں پہلے مَیں مار اپنی۔۔۔یہاں وہی مَیں ہے یعنی پہلے اپنے مَیں (تکبر) کو مار،حضرت گنگوہی کی بات کا آسان فہم مطلب یہ ہے کا آپ فرمانا چاہ رہے ہیں کہ۔۔اللہ میرے دل میں تو بھی ہے اور مَیں (تکبر) بھی ہے اور دل میں تویعنی تیری محبت اور میرا تکبر دونوں شرک در شرک ہے۔یہ بات حضرت نے پریشان ہوکر کہی ہے کیوں کہ دل میں جب اللہ کی محبت کش کرتی ہے مَیں مکش کرتی ہےیہ کشمکش آدمی کو پریشان کر دیتی ہے اور حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے یہی اپنی حالت زار اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھی ہے جسکی دلیل یہ ہے کہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے اس بات کے کرنے کے فوراً بعدتین مرتبہ استغفر اللہ اور ایک مرتبہ لاحول ولا قوۃ الا بااللہ پڑھ کر اللہ سے استغفار کیا ہے۔اب فضایل صدقات کو چھاپنے والے نے میں ہے وہ تو ہے کو میں ہوں وہ تو ہے کر دیاہے۔یہاں ہم اپنی اس غلطی کا اظہار و اقرار ضرور کرتے ہیں کہ فضایل صدقات میں اس عبارت کو صحیح کیوں نہیں کیا گیا یہ واقعی ہماری غلطی ہے۔
سے بات کرتے ہوئے آخر میں اللہ تعالیٰ عز وجل شانہ سے مخاطب ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں "تیرا ہی وجود ہے میں کیا
ہوں کچھ نہیں ہوںاور وہ جو میں ہوں وہ تو ہے اور میں اور تو خود شرک در شرک ہیں"(فضایل صدقات صفحہ )558
اب اگر یہ عبارت حقیقاًاور ظاہری طور پر واقعتاً ایسی ہی ہوتی تو شرک ہوتی۔لیکن یہ خط جسکی یہ عبارت ہے اس
عبارت کو مکاتیب رشیدیہ سے لے کر کے فضایل صدقات میں نقل کیا گیا ہے آپ اوپر اسکین میں صاف طور سے دیکھ سکتے ہیں مکاتیب رشیدیہ کے اس اسکین مین یہ عبارت اس طرح نہیں ہے جیسا کہ فضا یل صدقات میں نقل ہوا ہے یہاں پر الفاظ اس عبارت کے اس طرح ہے
"تیرا ہی وجود ہے ،میں کیا ہوں کچھ نہیں ہوں،اور وہ جو میں ہے وہ تو ہےاور میں اورتو خود شرک در شرک ہے
(مکاتیب رشیدیہ قدیم صفحہ 10 مکتوب 13 )
(مکاتیب رشیدیہ جدید صفحہ 36 مکتوب 13 )
اسی جدید ایڈیشن کی اسکین اوپر لگی ہوئی ہے۔اس عبارت میں مَیں سے مراد حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی ذات نہیں ہے بلکہ مَیں سے مراد تکبر ہے۔۔۔ جیسا کہ اللہ والے کہتے ہیں پہلے مَیں مار اپنی۔۔۔یہاں وہی مَیں ہے یعنی پہلے اپنے مَیں (تکبر) کو مار،حضرت گنگوہی کی بات کا آسان فہم مطلب یہ ہے کا آپ فرمانا چاہ رہے ہیں کہ۔۔اللہ میرے دل میں تو بھی ہے اور مَیں (تکبر) بھی ہے اور دل میں تویعنی تیری محبت اور میرا تکبر دونوں شرک در شرک ہے۔یہ بات حضرت نے پریشان ہوکر کہی ہے کیوں کہ دل میں جب اللہ کی محبت کش کرتی ہے مَیں مکش کرتی ہےیہ کشمکش آدمی کو پریشان کر دیتی ہے اور حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے یہی اپنی حالت زار اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھی ہے جسکی دلیل یہ ہے کہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے اس بات کے کرنے کے فوراً بعدتین مرتبہ استغفر اللہ اور ایک مرتبہ لاحول ولا قوۃ الا بااللہ پڑھ کر اللہ سے استغفار کیا ہے۔اب فضایل صدقات کو چھاپنے والے نے میں ہے وہ تو ہے کو میں ہوں وہ تو ہے کر دیاہے۔یہاں ہم اپنی اس غلطی کا اظہار و اقرار ضرور کرتے ہیں کہ فضایل صدقات میں اس عبارت کو صحیح کیوں نہیں کیا گیا یہ واقعی ہماری غلطی ہے۔