مجموعہ رسائل و مسائل علماء نجد کے جامع شيخ عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي الحنبلي، الشيخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب كا فرمان لکھتے ہیں کہ: ہمارے نزدیک امام ابن القیم اوران کے شیخ (ابن تیمیہ) أهل السنة میں سے حق کے امام ہیں، اور ان کی کتابیں ہمارے نزدیک مستند کتابیں ہیں، لیکن ہم ہر مسئلہ میں ان (امام ابن القیم اور امام ابن تیمیہ) کی تقلید نہیں کرتے کیونکہ سوائے ہمارے نبی محمد صلى الله عليه وسلم کے ہر کسی کا قول لیا بهی جاتا ہے اور چهوڑا بهی جاتا ہے، لہذا ہم نے کئی مسائل میں ان دونوں (امام ابن القیم اورامام ابن تیمیہ) کی مخالفت کی ہے جو کہ ایک معلوم بات ہے، مثلا انہی مسائل میں سےایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقوں کا مسئلے میں ہم أئمہ أربعہ (امام أبوحنیفہ، امام شافعی، امام أحمد بن حنبل، امام مالک) کی پیروی کرتے ہیں، (یعنی ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں، یہی أئمہ أربعہ اور جمہور أمت کا اور یہی شیخ ابن عبدالوهاب اور اس کے پیروکاروں کا مسلک هے.[الدرر السنية : كتاب العقائد ، ١/٢٤٠]؛ ==========================================
ائمہ اربعہ اور جمہور علمائے سلف وخلف کا مسلک یہ ہے کہ ایک مجلس میں یا ایک ہی کلمہ کے ذریعہ تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور ان کے ذریعہ بیوی مغلظہ بائنہ ہوجاتی ہے اور حلالہ شرعیہ کے بغیر شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوتی۔ یہی قول اکثر صحابہ تابعین اور بعد کے ائمہ اربعہ میں سے اکثر اہل علم کا ہے، ارو یہی قول قرآن وحدیث واجماع صحابہ سے ثابت ہے۔ :دلیل نمبر1
قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(سورۃ بقرۃ:230)
ترجمہ: اگر(کسی نے )اپنی بیوی کوطلاق دی تو اب(اس وقت تک کے لیے اس کے لیے ) حلال نہیں۔ یہاں تک کہ اس خاوند کے علاوہ دوسرے سے نکاح نہ کرلے۔
قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ:وَالْقُرْآنُ یَدُلُّ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ عَلٰی اَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَۃً لَّہُ دَخَلَ بِھَا اَوْلَمْ یَدْخُلْ بِھَا ثَلَاثًا لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ۔
(کتاب الام ؛امام محمد بن ادریس الشافعی ج2ص1939)
ترجمہ: امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’قرآن کریم کاظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، خواہ اس سے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو تووہ عورت اس شخص کے لیے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘
قَالَ الْاِمَامُ اَبُوْبَکْرٍاَحْمَدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْبَیْھَقِیُّ اَخْبَرَنَا اَبُوْزَکَرِیَّا بْنُ اَبِیْ اِسْحَاقَ الْمُزَکِّیُّ اَنَا اَبُوالْحَسَنِ الطَّرَائِفِیُّ نَاعُثْمَانُ بْنُ سَعِیْدٍنَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَلْحَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی قَوْلِہٖ تَعَالٰی {فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ} یَقُوْلُ اِنْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَلَا تَحِلُّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًاغَیْرَہُ۔
(سنن کبریٰ بیہقی ج7ص376 باب نکاح المطلقۃ ثلاثا)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں وہ اس کے لیے حلال نہیں حتی کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘
:دلیل نمبر2
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمٰعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ اَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ اَنَّ سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ السَاعِدِیَّ اَخْبَرَہُ…قَالَ عُوَیْمَرُکَذِبْتُ عَلَیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلاَ ثًا قَبْلَ اَنْ یَّامُرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ {وَفِیْ رِوَایَۃ ٍ}قَالَ فَطَلَّقَھَا ثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَنْفَذَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
(صحیح البخاری ج2ص791 باب من اجاز اطلاق الثلاث، سنن ابی داود: ج1ص324 باب فی اللعان)
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں اس کو اپنے پاس روکوں اور بیوی بناکر رکھوں تو میں نے پھر اس پر جھوٹ کہا پھراس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم صادر فرمانے سے پہلے ہی اس کو تین طلاقیں دے دیں۔(سنن ابی داود کی روایت میں ہے کہ) اس نے اس کو (یعنی عویمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین طلاقیں دیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کونافذ کردیا۔
:دلیل نمبر3
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا یَحْیٰ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَاَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلٰثاً فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتَحِلُّ لِلْاَوَّلِ؟ قَالَ:لَاحَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ۔
(صحیح بخاری ج2ص791باب من اجاز طلاق الثلاث)
ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں،اُس نے کسی اورمرد سے نکاح کیااور(ہمبستری سے پہلے)اسے طلاق دے دی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیاکہ وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں!جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے ہمبستری نہ کرے (اور لطف اندوز نہ ہوجائے ) جیساکہ پہلا خاوند ہوا۔‘‘
:دلیل نمبر4
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ عَلِیُّ بْنُ عُمَرَ الدَّارَقُطْنِیُّ نَاعَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِ الْحَافِظِ نَامُحَمَّدُ بْنُ شَاذَانَ الْجَوْھَرِیُّ نَامُعَلّٰی بْنُ مَنْصُوْرٍ نَاشُعَیْبُ بْنُ رُزَیْقٍ أنَّ عَطَائَ الْخُرَاسَانِیَّ حَدَّثَھُمْ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ نَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ عُمَرَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! رَأیْت لَوْ اَنِّیْ طَلَّقْتُھَا ثَلاَثاً کَانَ یَحِلُّ لِیْ أنْ اُرَاجِعَھَا؟ قَالَ لَا کَانَتْ تَبِیْنُ مِنْکَ وَتَکُوْنُ مَعْصِیَۃً۔
(سنن دارقطنی ج4ص20 حدیث نمبر3929)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی پھر ارادہ کیا کہ باقی دوطلاقیں بھی بقیہ دوحیض(یا طہر) کے وقت دے دیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبرہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا:’’تجھے اللہ تعالی نے اس طرح تو حکم نہیں دیا تو نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے سنت تو یہ ہے کہ جب طہر(پاکی) کا زمانہ آئے تو ہر طہرکے وقت اس کوطلاق دے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ تو رجوع کرلے! چنانچہ میں نے رجوع کر لیا پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’ جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کوطلاق دے دینا اورمرضی ہو تو بیوی بناکررکھ لینا ۔ ‘‘ اس پرمیں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ تو بتلائیں کہ اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لیے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کر لیتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں وہ تجھ سے جدا ہو جاتی اوریہ (کام کرنا ) گناہ ہوتا۔
:دلیل نمبر5
عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ اَنَّ حَفْصَ بْنَ الْمُغِیْرَۃِ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ فَاطِمَۃَ بِنْتَ قَیْسٍ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ فِیْ کَلِمَۃٍ وَاحِدَۃٍ فَأَبَانَھَامِنْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَبْلُغْنَا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَابَ ذٰلِکَ عَلَیْہِ۔
(سنن دارقطنی ج4ص10حدیث نمبر3877)
ترجمہ: حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں دیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیوی کو اس سے جدا کردیا اورہم کویہ بات نہیں پہنچی کہ اس وقت سے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ پر کسی قسم کاعیب لگایا ہو(یعنی ناراضگی کا اظہار کیا ہو)۔
:دلیل نمبر6
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ عَلِّیُّ بْنُ عُمَرَ الدَّارَقُطْنِیُّ نَاأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَیَّادِ الْقَطَّانُ نَااِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْھَیْثَمِ صَاحِبُ الطَّعَامِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ نَا سَلْمَۃُ بْنُ الْفَضْلِ عَنْ عَمْرِوبْنِ أبِیْ قَیْسٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِالْأعْلٰی عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفْلَۃَ قَالَ کَانَتْ عَائِشَۃُ الْخَثْعَمِیَّۃُ عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِب وَقَالَ لَوْلَاأَنِیْ سَمِعْتُ جَدِّیْ أوْحَدَّثَنِیْ أَبِیْ أَنَّہُ سَمِعَ جَدِّیْ یَقُوْلُ أَیُّمَا رَجُلٍ طَلَّقَ اِمْرَأَتَہُ ثَلاَثاً مُبْھَمَۃً أَوْ ثَلاَثاً عِنْدَ الْاِقْرَائِ لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ ۔
(سنن دارقطنی ج4ص20 حدیث نمبر3927)
ترجمہ: حضرت سوید بن غفلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’حضرت عائشہ خثعمیہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے نکاح میں تھیں(جب حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کرکے ان کو اپنا خلیفہ منتخب کرلیا اس موقع پر) انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کوکہا : ’’اے امیر المؤمنین! آپ کو خلافت مبارک ہواس پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا یہ مبارک باد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ہے؟ تو اس پر خوشی کا اظہار کر رہی ہے ؟ جا! تجھے تین طلاقیں ہیں۔ عدت گزرنے پرحضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کوبقیہ مہر اور مزید دس ہزار دیے تو وہ جواب میں کہنے لگی کہ طلاق دینے والی جیب سے یہ مال کم ملا ہے اس پرحضرت حسن رضی اللہ عنہ رو دیے) اور فرمایا کہ اگر میں نے اپنے نانا جان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا یا یہ فرمایا کہ مجھے میرے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے میرے نانا جان کی یہ حدیث اگر نہ سنائی ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص اپنی بیوی کو ایک دفعہ تین طلاقیں دے دے یا تین طہروں میں تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرے۔ تو میں ضروراس کی طرف رجوع کرلیتا۔‘‘
:دلیل نمبر7
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ عَبْدُالرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا یَحْیَ بْنُ الْعَلاَئِ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ الْوَلِیْدِ الْعَجَلِیِّ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ دَاوٗدَ عَنْ عُبَادَۃَ (بن) الصَامِتِ قَالَ: طَلَّقَ جَدِّیْ اِمْرَأۃً لَہُ أَلْفَ تَطْلِیْقَۃً فَانْطَلَقَ أبِیْ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَلَہُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَا اِتَّقٰی اللّٰہَ جَدُّکَ اَمَّا ثَلاَثٌ فَلَہُ وأمَّا تِسْعُ مِائَۃٍ وَسَبْعٌ وَّتِسْعُوْنَ فَعُدْوَانٌ وَظُلْمٌ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَذَّبَہُ وَاِنْ شَائَ غَفَرَلَہُ۔
(مصنف عبدالرزاق ج 6ص305 , باب المطلق ثلاثا)
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے دیں تو میرے والد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اس واقعہ کا ذکرکیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیا تیرے والد (والد کوبھی جد کہا جاتا ہے) اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرے اسے صرف تین طلاقوں کاحق ہے اور نو سو ستانوے زیادتی اور ظلم ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو اس کوعذاب دے دیں اوراگر چاہیں تو معاف کردیں۔‘‘
:دلیل نمبر8
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرٍقَالَ نَاعَلِیُّ بْنُ مُسْھِرٍ عَنْ شَقِیْقِ بْنِ أَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ کاَنَ عُمَرُ اِذَا اَتیٰ بِرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فِیْ مَجْلِسٍ أَوْجَعَہُ ضَرْباً وَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج4ص11 باب من کرہ ان یطلق الرجل امرأتہ ثلاثا)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی ایسا آدمی لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوتیں توحضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کو سزا دیتے اوران میاں بیوی کے درمیان جدائی کردیتے تھے۔‘‘
:دلیل نمبر9
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ عَبْدُالرَّزَّاقِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ شَرِیْکِ بْنِ أَبِیْ نَمْرٍقَالَ جَائَ رَجُلٌ اِلٰی عَلِیٍّ فَقَالَ اِنِّیْ طَلَّقْتُ اِمْرَأتِیْ عَدَدَ الْعَرْفَجِ۔ قَالَ تَاْخُذْ مِنَ الْعَرْفَجِ ثَلاَثاً وَتَدْعُ سَائِرَہُ۔ (مصنف عبدالرزاق ج6ص306 باب المطلق ثلاثا)؛
ترجمہ: شریک بن ابی نمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ ایک آدمی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے اپنی بیوی کوعرفج درخت کے عدد کے برابر طلاق دی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’ کہ عرفج درخت سے تین کو لے لے اور باقی تمام چھوڑ دے۔‘‘
:دلیل نمبر10
قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ الْکَبِیْرُ أَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ التَّابِعِیُّ الْکُوْفِیُّ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ حُسَیْنٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ دِیْناَرٍ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ طَلَّقْتُ اِمرَأتِیْ ثَلاَثًا فَقَالَ عَصَیْتَ رَبَّکَ وَحَرُمَتْ عَلَیْکَ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاًغَیْرَکَ۔
(مسند ابی حنیفۃ بروایۃ قاضی ابی یوسف بحوالہ جامع المسانید للخوارزمی ج2ص148)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آ کرکہنے لگا میں نے اپنی بیوی کو تینطلاقیں دی ہیں۔آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تیری بیوی تجھ پر حرام ہوگئی حتی کہ وہ تیرے علاوہ کسی اورمرد سے نکاح کرلے۔‘‘
********************
تین طلاقوں کے تین واقع ہونے پر اجماع امت
:دلیل نمبر11
1: قَدْ قَالَ الْاِمَامُ أَبُوْبَکْرِ ابْنُ الْمُنْذِرِ النِّیْشَابُوْرِیُّ: وَأجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَاطَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثًا أَنَّھَالَاتَحِلُّ لَہُ اِلَّابَعْدَ زَوْجٍ عَلٰی مَا جَائَ بِہ حَدِیْثُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:أَوْ اَجْمَعُوْاعَلٰی أَنَّہُ اِنْ قَالَ لَھَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً اِلَّا ثَلاَثاً اَنَّھَا اُطْلِقَ ثَلاَ ثًا۔
(کتاب الاجماع لابن المنذر ص92)
ترجمہ: امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا :’’فقہاء اورمحدثین امت نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جب مرد اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں رہتی۔ ہاں! جب وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے تواب حلال ہو جاتی ہے کیونکہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وارد ہوئی ہے ۔ ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ فقہاء ومحدثین کا اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو کہا اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً اِلَّا ثَلَاثاً(تجھے تین طلاقیں ہیں مگر تین طلاق) تو تین ہی واقع ہوں گی۔‘‘
:دلیل نمبر12
2: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ أَبُوْجَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الطَّحَاوِیُّ مَنْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فَاَوْقَعَ کُلاًّ فِیْ وَقْتِ الطَّلَاقِ لَزِمَہُ مِنْ ذٰلِکَ…فَخَاطَبَ عُمَرُ بِذٰلِکَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَفِیْھِمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الَّذِیْنَ قَدْعَلِمُوْامَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْھُمْ مُنْکِرٌوَلَمْ یَدْفَعْہُ دَافِعٌ فَکَاَنَّ ذٰلِکَ اَکْبَرُ الْحُجَّۃِ فِیْ نَسْخٍ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ لِاَنَّہُ لَمَّاکَانَ فِعْلُ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمِیْعاً فِعْلاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ کَانَ کَذٰلِکَ اَیْضاً اِجْمَاعُھُمْ عَلَی الْقَوْلِ اِجْمَاعاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ۔
(سنن الطحاوی ج2ص34باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معا،ونحوہ فی مسلم ج1 ص477 )؛
ترجمہ: محدث کبیر امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اورتینوں کو طلاق کے وقت واقع بھی کردیا تو اس سے لازم ہو جائیں گی (دلیل اس کی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کااجماع ہے کہ) جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو اس چیز کے متعلق خطاب فرمایا کہ تین طلاقیں تین ہی ہوں گی اوران لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بھی موجود تھے جو حضور علیہ السلام کے عہد مبارک میں اس معاملہ سے بخوبی واقف تھے لیکن کسی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات کا انکار نہ کیا اورنہ ہی کسی نے اسے رد کیا۔ تو یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ معاملہ رہا، منسوخ ہے۔ اس لیے کہ جس طرح تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا فعل اتنی قوت رکھتا ہے کہ اس سے دلیل پکڑنا واجب ہے اسی طرح حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کاکسی بات پر اجماع کرنا بھی حجت ہے (جیساکہ اس مسئلہ طلاق میں ہے )؛
:دلیل نمبر13
3: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْمُفَسِّرُ الْقَاضِیُّ ثَنَائُ اللّٰہِ الْعُثْمَانِیُّ فِیْ تَفْسِیْرِ ھٰذِہِ الْآیَۃِ{أَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ}لَاَنَّ قَوْلَہُ أَلطَّلَاَقُ عَلٰی ھٰذَا التَّاوِیْلِ یُشْمِلُ الطَّلَقَاتِ الثَّلاَثَ اَیْضاً…لٰکِنَّھُمْ اَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّہُ مَنْ قَالَ لِاِمْرَأتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً یَقَعُ ثَلاَثٌبِالْاِجْمَاعِ ۔
(تفسیر مظہری ج2ص300)
ترجمہ: مفسر قرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ آیت {اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ} کی ت فسیر میں فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’اَلطَّلَاقُ‘‘اس تفسیر کے مطابق (جو پہلے ذکر کی ہے) تین طلاقوں کو بھی شامل ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ فقہاء ومحدثین نے اس بات پر اجماع کیاہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کوکہا’’اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً ‘‘(تجھے تینطلاقیں ہیں) تو بالاجماع تین ہی واقع ہوجائیں گی۔
==========================================
!ایک ساتھ تین طلاق دینے کا حکم
کیا فرماتے علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ؛
میں نے اپنی بیوی کو ۱۲/مارچ ۲۰۰۹ء کو تین طلاقیں دیں اور کچھ دن بعد عدالت سے بھی طلاق کے کاغذات لئے، جس پر میری طرف سے تحریری طلاق درج تھی، طلاق کے بعد میری بیوی اپنے والدین کے گھر چلی گئی، انہوں نے گھر سے نکالا تو وہ نانی ، نانا کے ہاں گئی، اس کے نانا نے لڑکی کو اور مجھے محمدی مسجد لے گئے، جہاں سے انہوں فتویٰ دیا کہ یہ طلاق رجعی ہے اورہمارا دوبارہ تجدید نکاح کرایا۔ اب کیا ہمارا یہ نکاح تھا یا نہیں؟
مستفتی راحیل الدین مکان نمبر ۱۳۴۵ گولیمار نمبر۲ کراچی۔
الجواب بعون الوہاب
واضح رہے کہ از روئے قرآن وحدیث وجمہور صحابہ کرام، تابعین وتبع تابعین، ائمہ مجتہدین بالخصوص چاروں ائمہ کرام امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ان تمام حضرات کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
:دلیل نمبر14
”الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان“ (بقرہ:۲۳۹)؛
اور اگلی آیت میں ہے:
”فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ…“ (بقرہ:۲۳۰)؛
یعنی دو طلاق دینے تک تو مرد کو رجوع کا اختیار ہے، لیکن جب تیسری طلاق بھی دیدی تو اب مرد کے لئے رجوع کا حق باقی نہیں رہتا، عورت اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے۔
چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبی فرماتے ہیں:
”ترجم البخاری علی ہذہ الایة باب من اجاز الطلاق الثلاث بقولہ تعالیٰ الطلاق مرتان، فامساک بمعروف او تسریح باحسان، وہذا اشارة الی ان ہذہ التعدید انما ہو فسخة لہم فمن ضیق علی نفسہ لزمہ قال علمائنا: واتفق ائمة الفتویٰ علی لزوم ایقاع الطلاق الثلاث فی کلمة واحدة وہو قول جمہور السلف… المشہور عن الحجاج بن ارطاة وجمہور السلف والائمة انہ لازم واقع ثلاثاً ولافرق بین ان یوقع ثلاثًا مجتمعة فی کلمة او متفرقة فی کلمات…“ (الجامع لاحکام القرآن ج:۳/۱۲۹)؛
اسی طرح احکام القرآن للجصاص میں ہے:
”قال ابوبکر: قولہ تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان الایة: یدل علی وقوع الثلاث معاً مع کونہ منہیاً عنہا…“ (ج:۱/۴۶۷)؛
اسی طرح حدیث میں ہے:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، " أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ ، فَطَلَّقَ ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ ؟ قَالَ : لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ " .
محمد بن بشار، یحیی ، عبیداللہ ، قاسم، بن محمد، حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو "تین طلاق" دیدیں تو اس عورت نے (دوسرا) نکاح کرلیا پھر اس نے (صحبت کئے بغیر) بھی طلاق دے دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا کہ کیا وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں جب تک کہ اس کا شوہر اس سے لطف اندوز نہ ہو لے جس طرح پہلا شوہر لطف اندوز ہوا تھا۔
اس حدیث میں ”طلق امراتہ ثلاثًا“ کا جملہ اس کا مقتضی ہے کہ تین طلاق اکھٹی اور دفعة دی گئیں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے تین طلاقیں اکٹھی واقع ہوجانے پر استدلال ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
”وہی بایقاع الثلاث اعم من ان تکون مجمعةً او متفرقةً“
(فتح الباری ج:۹/۳۶۲ ط ادارة بحوث العلمیة)
غیر شرعی طلاقیں بھی نافذ ہوجاتی ہیں
حالت_حیض میں طلاق دینا ممنوع ہے، مگر دی گئی تو طلاق ہوجاتی ہے، ورنہ رجوع کرنے کا حکم نہ ہوتا، ایسے ہی تین طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہیں اور بیوی حرام ہوجاتی ہے.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ نَافِعٍ ، " أَنَّ ابْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ وَهِيَ حَائِضٌ تَطْلِيقَةً وَاحِدَةً ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَاجِعَهَا ، ثُمَّ يُمْسِكَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ عِنْدَهُ حَيْضَةً أُخْرَى ، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ مِنْ حَيْضِهَا ، فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا ، فَلْيُطَلِّقْهَا حِينَ تَطْهُرُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُجَامِعَهَا ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ " ، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا سُئِلَ عَنْ ذَلِكَ ، قَالَ لِأَحَدِهِمْ : إِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْكَ ، حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ . وَزَادَ فِيهِ غَيْرُهُ . عَنْ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ : لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي بِهَذَا . [صحيح البخاري » كِتَاب الطَّلَاقِ » بَاب وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ سورة البقرة ..., رقم الحديث: 4944(5332]؛
قتیبہ، لیث، نافع کہتے ہیں کہ ابن عمربن خطاب رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دے دی تو ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ رجوع کرلے، پھر اس کو روکے رکھ، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے، پھر اس کے پاس اسے دوسرا حیض آجائے، پھر اس کو رہنے دے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے، اگر وہ اس کو طلاق دینا چاہتا ہے تو طلاق دے دے جب کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے لیکن صحبت سے پہلے، یہی وہ عدت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا تو ایک شخص سے کہا کہ جب تو اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو وہ تجھ پر حرام ہے، یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے، اور دوسرے لوگوں نے اس میں اضافہ کے ساتھ لیث سے بواسطہ نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا کہ کاش! تو عورت کو ایک یا دو طلاقیں دیتا اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا مجھے حکم دیا تھا۔[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 306 (5017) - طلاق کا بیان : اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان کا شوہر عدت میں ان کے لوٹانے کا زیادہ مستحق ہے اور کس طرح عورت سے رجوع کیا جائے جب کہ اس کو ایک یا دو طلاقیں دے دے]حدیث میں ہے:
”عن مجاہد قال کنت عند ابن عباس فجاء ہ رجل فقال انہ طلق امراتہ ثلاثاً قال فسکت حتی ظنت انہ رآدہا الیہ ثم قال ینطلق احدکم فیرکب الحموقة ثم یقول: یا ابن عباس یا ابن عباس وان الله تعالیٰ قال ومن یتق الله یجعل لہ مخرجاً، وانک لم تتق الله فلااجد لک مخرجاً، عصیت ربک وبانت منک امراتک“۔ (سنن ابی داؤد ج:۱/۲۹۹ ط حقانیہ)؛
ترجمہ:…”مجاہد سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں (کیا حکم ہے) حضرت ابن عباس نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش ہوگئے (مجاہد کہتے ہیں) مجھے گمان ہونے لگا کہ شاید ابن عباس اس کی بیوی کو واپس لوٹانے والے ہیں پھر ابن عباس نے فرمایا: کہ تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان پر حماقت سوار ہوتی ہے، پھر میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے یا ابن عباس یا ابن عباس جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے راستہ نکالتا ہے اور تو اللہ تعالیٰ سے ڈر انہیں (اور بیک وقت تین طلاقیں دیدی) اس لئے قرآن کے مطابق تمہارے لئے کوئی راستہ نہیں پاتا تونے خدا کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم پر حرام ہوگئی ہے اور تم سے جدا ہوگئی ہے“۔
اور ابوداؤد اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”روی ہذا الحدیث حمید الاعرج وغیرہ عن مجاہد عن ابن عباس… کلہم قالوا فی الطلاق الثلاث انہ اجاز ہا قال وبانت منک…“ (ابی داؤد ج:۱/۲۹۹ ط حقانیہ)؛
یعنی ان حضرات نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے یہ تمام رواة متفقہ طور پر نقل فرمارہے ہیں کہ ابن عباس نے تین طلاقوں کو نافذ فرمادیا اور فتویٰ دیا کہ عورت جدا ہوگئی۔اسی طرح نسائی شریف کی حدیث میں ہے:
”عن محمود بن لبید قال اخبر رسول الله ا عن رجل طلق امراتہ ثلاث تطلیقات جمیعاً فقام غضباناً ثم قال ایلعب بکتاب الله وانا بین اظہر کم حتی قال رجل وقال یا رسول الله الا اقتلہ“۔ (ج:۲/۹۹ ط قدیمی)؛
ترجمہ:…”محمود بن لبید سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپ علیہ الصلاة و السلام کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دیدیں ہیں۔ آپ علیہ السلام نے غضبناک ہوکر تقیریر فرمائی کہ کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے، حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، آنحضرت اکا یہ غصہ دیکھ کر ایک صحابی کھڑے ہوگئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اسے قتل نہ کردوں“۔
حدیث مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں مجتمعاً واقع ہوجاتی ہیں۔ اگر واقع نہ ہوتیں تو آنحضرت ا غضبناک نہ ہوتے اور فرمادیتے کہ کوئی حرج نہیں رجوع کرلو۔
اسی طرح مؤطا امام مالک میں ہے؛
”عن مالک بلغہ ان رجلاً قال لابن عباس انی طلقت امرأتی مأة تطلیقة ما ذاتری علی؟ فقال لہ ابن عباس طلقت منک بثلاث وسبع وتسعون اتخذت بہا آیات اللہ ہزوا“ (ص:۵۱۰)؛
ترجمہ:…”ایک شخص نے ابن عباس سے کہا میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں ہیں، اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: تین طلاقوں سے تو عورت تجھ سے جدا ہوگئی اور بقیہ ستانوے طلاقوں سے تونے اللہ کی آیات کا تمسخر کیا ہے“۔
اور طحاوی شریف میں ہے؛
”عن مالک بن حارث قال رجل الی ابن عباس فقال ان عمی طلق امراتہ ثلاثاً فقال: ان عمک عصی الله فاثمہ الله واطاع الشیطان فلم یجعل لہ مخرجا فقلت کیف تری فی رجل یحلہا لہ فقال من یخادع الله یخادعہ…“ (باب الرجل یطلق امراتہ ثلاثا معا ج:۲/۳۴)؛
ترجمہ:…”مالک بن حارث فرماتے ہیں کہ ایک شخص ابن عباس کے پاس آیا اور کہا میرے چچا اپنی عورت کو دفعةً تین طلاقیں دے بیٹھے ہیں۔حضرت ابن عباس نے فرمایا: تیرے چچا نے خدا کی نافرمانی کی اور شیطان کی اطاعت کی اور آپ نے اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں نکالی۔مالک بن حارث فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا :آپ اس شخص کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو اس عورت کو اس شوہر کے لئے حلال کرے؟ آپ نے فرمایا: جو اللہ سے چالبازی کرے گا اللہ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرے گا“۔
اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
”عن انس قال کان عمر اذا اتی برجل قد طلق امراتہ ثلاثاً فی مجلس او جعہ ضرباً وفرق بینہما…“ (ج:۵/۱۱) وفیہ ایضا عن معمر عن الزہری فی رجل طلق امراتہ ثلاثاً جمیعاً قال ان من فعل فقد عصی ربہ وبانت منہ امراتہ“ (ج:۵/۱۱)؛
ترجمہ:…”حضرت انس فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق کے پاس ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دی ہوتیں تو آپ اس کو سزا دیتے ہیں اور دونوں میں تفریق کردیتے ہیں۔ تو قرآنی آیات وتفاسیر واحادیث سے روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دقعةً تین طلاقیں دینے سے تین ہی شمار ہوتی ہیں۔“
لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے چونکہ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں تو اس سے بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب شوہر کے لئے رجوع کرنا جائز نہیں اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ اس سے نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
باقی غیر مقلدین کا منسلکہ فتویٰ از روئے قرآن وحدیث اور جمہور صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین اور چاروں ائمہ کے متفقہ مسلک کے خلاف ہے، جیساکہ اوپر لکھا گیا ہے اور جس حدیث کو بطور استدلال پیش کیا ہے، اس حدیث سے تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے کا استدلال کرنا تمام فقہاء کے نزدیک باطل ہے۔مذکورہ حدیث حضرت عبد اللہ ابن عباس کی ہے اس حدیث سے استدلال کرنا اس لئے درست نہیں ہے کہ اس حدیث کو ابوداؤد نے بھی روایت کیا ہے اور اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت غیر مدخولہ کے متعلق ہے، عام نہیں ہے۔واضح رہے کہ عورتیں دو قسم کی ہیں؛
٢) غیر مدخولہ (جس کے ساتھ ہمبستری نہ ہوئی ہو)؛
٢) مدخولہ (جس کے ساتھ صحبت ہوچکی ہو) غیر مدخولہ عورت کو اگر الگ الگ لفظوں میں اس طرح طلاق دی جائے۔ ”تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے“تو پہلے ہی لفظ سے وہ بائنہ ہوجاتی ہے یعنی نکاح سے نکل جاتی ہے اور ایسی عورت پر عدت بھی لازم نہیں ہوتی، جب یہ عورت پہلے ہی لفظ سے بائنہ ہوگی اور اس پر عدت بھی نہیں تو اس کے بعد وہ طلاق کا محل نہ رہی، اس بناء پر دوسری اور تیسری طلاق لغو ہوتی ہے، اسی اعتبار سے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اگر تین طلاقیں دی جائیں تو ایک شمار ہوتی ہیں۔ حضور اکرم ا حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر کے ابتدائی سالوں میں غیر مدخولہ کو طلاق دینے کا یہی طریقہ تھا۔ مگر بعد میں لوگوں نے جلد بازی شروع کردی اور ایسی غیر مدخولہ کو ایک ساتھ ایک لفظ میں تین طلاق دینے لگے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اب تین طلاق ہی ہوں گی۔ کہ (انت طالق ثلاثا) کہہ کر طلاق دی ہے اور یہ لفظ نکاح قائم ہونے کی حالت میں بولا ہے۔ (ابوداؤد شریف ج:۱/۳۰۶)؛
طلاق کے متعلق حضرت عمرؓ کے فیصلہ کی وضاحت ؛
دوسرا جواب یہ ہے کہ حضور اکرم ا اور حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر کے ابتدائی زمانہ میں جب ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ کہا جاتا تو عموماً لوگوں کی دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید کی نیت ہوتی، استیناف کی نیت نہیں ہوتی تھی اور اس زمانہ میں لوگوں میں دین اور تقویٰ اور خوف آخرت اور خوف خدا غالب تھا دنیا کی خاطر دروغ بیانی کا خطرہ تک دل میں نہ آتا تھا۔ آخرت میں جوابدہی اور آخرت کے عذاب کا اتنا استحضار رہتا کہ مجرم بذات خود حاضر ہوکر اپنے جرم کا اقرار کرتا اور اپنے اوپر شرعی حد جاری کرنے کی درخواست کرتا، اس بناء پر ان کی بات پر اعتماد کرکے ایک طلاق کا حکم کیا جاتا، اسی اعتبار سے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اس زمانے میں تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں مگر جیسے جیسے عہد نبوی سے بعد ہوتا گیا اور بکثرت عجمی لوگ بھی حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے، ان میں تقویٰ وخوف آخرت کا معیار کم ہونے لگا اور پہلے جیسی سچائی، امانت داری اور دیانت داری نہ رہی، دنیا اور عورت کی خاطر دروغ بیانی ہونے لگی، جس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایاجاسکتا ہے۔
حضرت عمر کے پاس عراق سے ایک سرکاری خط آیا کہ یہاں ایک شخص نے اپنی بیوی کو یہ جملہ کہا ہے ”حبلک علی غاربک“ (تیری رسی تیری گردن پر ہے) حضرت عمر بن خطاب نے اپنے عامل کو لکھا کہ ”ان مرہ ان یوافینی بمکة فی الموسم“ اس کو کہو کہ حج کے زمانہ میں مکہ مکرمہ میں مجھ سے ملے۔ حضرت عمر حج کے زمانہ میں کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ اس آدمی (عراقی) نے آپ سے ملاقات کی اور سلام کیا، حضرت عمر نے فرمایا: تم کون ہو، اس نے کہا: میں وہی ہوں جس کو آپ نے حج کے زمانہ میں طلب کیا تھا، حضرت عمر نے فرمایا: تجھے رب کعبہ کی قسم سچ بتا ”حبلک علی غاربک“ سے تیری کیا نیت تھی، اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ نے اگر اس مبارک جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ قسم لی ہوتی تو میں صحیح نہ بتاتا، حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس جملے سے فراق کا یعنی عورت کو اپنے نکاح سے الگ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا: عورت تیرے ارادے کے مطابق تجھ سے علیحدہ ہوگئی۔
(موطأ امام مالک ص:۵۱۱ ماجاء فی الخلیة والبریة واشباء ذلک بحوالہ فتاویٰ رحیمہ ۴/۳۴۳)؛
یہ عراقی ایک عورت کے لئے جھوٹی قسم کھانے کے لئے اور دروغ بیانی کے لئے تیار تھا مگر کعبة اللہ اور حرم شریف کی عظمت وتقدس کا خیال رکھتے ہوئے کذب بیانی سے احتراز کیا۔
حضرت عمر نے عوام کی جب یہ حالت دیکھی، نیز آپ کی نظر اس حدیث پر تھی؛
”اکرموا اصحابی فانہم خیارکم، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، ثم یظہر الکذب حتی ان الرجل یحلف ولایستحلف ویشہد ولایستشہد…الخ“۔ (مشکوٰة المصابیح، باب مناقب الصحابة ج:۳/۵۵۴ ط سعید)؛
یعنی عہد نبوت سے جیسے جیسے دوری ہوتی چلی جائے گئی، دینداری کم ہوتی رہے گی اور کذب ظاہر ہو گا۔ حضرت عمر نے موجودہ اور آئندہ حالات کو پیش نظر رکھ کر صحابہ سے مشورہ کیا کہ جب ابھی یہ حالت ہے تو آئندہ کیا حالت ہوگی اور لوگ عورت کو الگ کردینے کی نیت سے تین طلاق دیں گے اور پھر غلط بیانی کرکے کہیں گے کہ ہم نے ایک طلاق کی نیت کی تھی۔ آپ نے اس چور دروازے کو بند کرنے کے لئے فیصلہ کیا کہ لوگوں نے ایسی چیز میں جلد بازی شروع کردی جس میں انہیں دیر کرنی چایئے تھی، اب جو شخص تین مرتبہ طلاق دے گا، ہم اسے تین ہی قرار دیں گے۔ صحابہ کرام نے اس فیصلہ سے اتفاق کیا اور کسی ایک نے بھی حضرت عمر کی مخالفت نہ کی، چنانچہ طحاوی شریف میں ہے:
”فخاطب عمربذلک الناس جمیعا وفیہم اصحاب رسول اللہ ا ورضی اللہ عنہم الذین قد علموا ما تقدم من ذلک فی زمن رسول اللہ ا فلم ینکرہ علیہ منہم ولم یدفعہ دافع…“ (ج:۲/۳۴)؛
محقق علامہ ابن ہمام رحمة اللہ فرماتے ہیں:
”ولم ینقل عن احد منہم انہ خالف عمر حین امضی الثلاث وہی یکفی فی الاجماع…“ (حاشیہ ابوداؤد ج:۱/۳۰۶)؛
یعنی کسی ایک صحابی سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ جب حضرت عمر نے صحابہ کی موجودگی میں تین طلاق کا فیصلہ کیا، ان میں سے کسی ایک نے بھی… حضرت عمر کے خلاف کیا ہو اور اس قدر بات اجماع کے لئے کافی ہے۔ امام نووی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”فاختلف العلماء فی جوابہ وتاویلہ فالاصح ان معناہ انہ کان فی اول الامر اذا قال لہا انت طالق، انت طالق، انت طالق، ولم ینو تاکیداً ولااستینافاً یحکم بوقوع طلقة لقلة ارادتہم الاستنیاف بذلک فحمل علی الغالب الذی ہو ارادة التاکید فلما کان فی زمن عمر وکثر استعمال الناس بہذہ الصیغة وغلب منہم ارادة الاستیناف بہا حملت الاطلاق علی الثلاث عملاً بالغالب السابق الی الفہم…“ (نووی شرح مسلم ج:۱/۴۷۸ ط قدیمی)؛
یعنی حدیث حضرت ابن عباس کی بالکل صحیح تاویل اور اس کی صحیح مراد یہ ہے کہ شروع زمانہ میں جب کوئی انت طالق، انت طالق، انت طالق (یعنی تجھے طلاق، تجھے طلاق، تجھے طلاق) کہہ کر طلاق دیتا تو عموماً اس زمانہ میں دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید کی نیت ہوتی تھی، استیناف کی نیت نہ ہوتی تھی، جب حضرت عمر کا زمانہ آیا اور لوگوں نے اس جملہ کا استعمال بکثرت شروع کیا اور عموماً ان کی نیت طلاق کی دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف ہی کی ہوتی تھی، اس لئے اس جملہ کا جب کوئی استعمال کرتا تو عرف کی بناء پر تین طلاقوں کا حکم کیا جاتا۔
مسئلہ تین طلاق میں حضرت ابن_عباس (رض) کی
:مختلف معارض احادیث کا جواب
حدیث_مسلم میں منقول قول_حضرت ابن_عباس(رض)؛حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دور خلافت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو سال تک تین طلاق ایک ہی شمار کی جاتی تھیں سو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس حکم میں جو انہیں مہلت دی گئی تھی جلدی شروع کر دی ہے پس اگر ہم تین ہی نافذ کردیں تو مناسب ہوگا چنانچہ انہوں نے تین طلاق ہی واقعہ ہو جانے کا حکم دے دیا۔
حدیث_طحاوی میں منقول قول_حضرت ابن_عباس(رض)؛پھر یہی ابن_عباس رضی الله عنہما اس کے بعد فتویٰ دیتے ہیں کہ جو شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین (٣) طلاقیں دے تو اس کی طلاق لازم ہوجاتے گی اور وہ عورت اس پر حرام ہو جائیگی.[طحاوی:٢٢١+٢٢٢]؛
تشریح : ١ شارح_مسلم امام نووی (٦٣١-٦٧٦ھ ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: المراد أن المعتاد في الزمن الأول کان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر رضي اللہ عنہ یوقعون الثلاث دفعة فنفذہ فعلی ھذا یکون إخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغیر حکم في مسئلة واحدة. یعنی مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ کیا تو اس طور پر یہ حدیث لوگوں کی "عادتوں" کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ واحدہ میں "حکم" کے بدلنے کی اطلاع ہے۔ (شرح مسلم: ج۱ ص۴۷۸)؛تشریح : ٢ امام بخاری و مسلم کے استاد امام ابن ابی شیبہ نے، پھر امام ابو داود اور امام بیہقی نے اس قول میں یہ بھی روایت کیا ہے کہ یہ اس عورت کے بارے میں ہے جس کی رخصتی نہیں ہوئی. امام نسائی نے بھی یہی باب بندھا ہے؛ (بیوی سے دخول/جماع سے قبل تین علیحدہ طلاقیں دینا)؛[السنن الكبرى للنسائي » كِتَابُ الطَّلاقِ » طَلاقِ الثَّلاثِ الْمُتَفَرِّقَةِ قَبْلَ الدُّخُولِ ...، رقم الحديث: 5411 (5569)]اور ایسی عورت کے بارے میں خود حضرت عبدللہ بن عباس رضی الله عنہ کی وضاحت (ابن_ابی شیبہ : ٥/٢٥) پر موجود ہے کہ اگر اس کو یوں کہا جاۓ تجھے طلاق، طلاق، طلاق، تو اس کی ایک ہی طلاق پڑتی ہے (اس صورت میں دوبارہ نکاح بغیر حلالہ_شرعی کے جائز ہے اور سوچ و بچار کی گنجائش ہے) اور اگر یوں اس کو طلاقیں دی جائیں کہ تجھے تین طلاق تو اس سے تین طلاقیں ہی واقع ہوجاتی ہیں، اب بغیر حلالہ_شرعی کے اس کے نکاح نہیں ہوسکتا، یہ وہ جلدبازی ہے جس میں سوچ بچار کا موقع نہیں رہتا.:امام ابن_رشد مالکی رح (520هـ-595هـ) فرماتے ہیںوقد احتج من انتصر لقول الجمهور بأن حديث ابن عباس الواقع في الصحيحين إنما رواه عنه من أصحابه طاوس ، وأن جلة أصحابه رووا عنه لزوم الثلاث ، منهم سعيد بن جبير ، ومجاهد ، وعطاء ، وعمرو بن دينار وجماعة غيرهم ، وأن حديث ابن إسحاق وهم ، وإنما روى الثقات أنه طلق ركانة زوجه البتة لا ثلاثا . جمہور (علماء کی راۓ و مذھب) کی حمایت کرنے والے یہ استدلال کرتے ہیں کہ صحیحین میں موجود حضرت ابن_عباس (رض) کی حدیث کی روایت ان کے اصحاب میں سے "طاوس" نے کی ہے، جبکہ ان کے بیشتر اصحاب نے، جن میں سعید بن جبیر رح ، مجاہد رح ، عطاء رح اور عمرو بن دینار رح ہیں اور ان کے علاوہ ایک جماعت نے تین طلاقوں کے واقع ہوجانے کا قول نقل کیا ہے اور (رکانہ کے تین طلاق کے ایک ہونے کی بواسطہ عکرمہ کے حضرت ابن_عباس کی بیان شدہ) ابن_اسحاق کی حدیث "وہم" ہے، ثقہ راویوں کے الفاظ تو یہ ہیں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق_بتہ (طلاق_بائن) دی تھی، اس میں تین کے الفاظ نہیں ہیں.[بداية المجتهد ونهاية المقتصد » كتاب الطلاق]
معترضین سے سوالات :
١) حدیث_مسلم کے قول سے تین طلاق سے مراد ہر قسم کی تین طلاقیں ہیں تو تین الگ الگ "طهر" میں دی گئی تین طلاقیں بھی کیا ایک ہونگی؟
٢) حدیث_مسلم میں اکٹھا تین طلاق کا ترجمہ جو کرتے ہیں، وہ کس لفظ کا ترجمہ کرتے ہیں؟ اس میں نہ ہی ایک مجلس کا لفظ ہے نہ جميعاً کا.
٣) صبح ، شام، رات یا تین دنوں یا ہفتوں میں ایک ایک کرکے تین طلاقیں کوئی الگ مجلس اور الگ وقت میں دے تو کیا وہ بھی ایک ہونگی؟٤) اکٹھی تین طلاق دینا اللہ کی آیت سے استہزاء اور رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) کی ناراضگی کا سبب ہے. تو کیا صحابہ_کرام (رضی الله عنھم) بلا-روک ٹوک دور_نبوت، دور_صدیقی اور دور_فاروقی کے دو ابتدائی سالوں میں یہ گناہ کرتے رہے اور بدعی طلاق دیکر بدعتی بنتے رہے؟ صحابہ_کرام (رضی الله عنھم) کے بارے میں یہ نظریہ رفض (شیعہ) کا تو ہے، کیا غیر مقلدین کا بھی ہے؟؟؟٥) اسی طرح کی "متعہ" پر ایک حدیث_مسلم (کتاب النکاح: نکاح_متعہ) میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک مٹھی کھجور یا ایک مٹھی آٹے کے عوض مقررہ دنوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں متعہ کر لیتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمرو بن حریث کے واقعہ کی وجہ سے متعہ سے منع فرمایا دیا۔اس مسئلہ پر بھی شیعہ کی طرح کیا آپ بھی یہ ثابت مانتے ہو یا مانوگے؟ کہ نبی (صلی الله علیہ وسلم) اور حضرت ابو بکر (رضی الله عنہ) کے زمانہ میں جواز_متعہ پر سب صحابہ کا اجماع تھا، حضرت عمر (رضی الله عنہ) کا روکنا ایک سیاسی حکم تھا، کوئی شرعی حکم نہیں تھا، اسی لئے حضرت ابن_عباس (رضی الله عنہ) نے پہلے اجماع کے اصل حکم_شرعی پر قائم رہتے ان سے اختلاف کیا. کیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟ تو کیوں؟
٦) حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کو یہ حق ہے کہ وہ کسی (سیاسی) ضرورت کی ماتحت الله کے حلال کو حرام کردے؟ اور کیا وہ الله کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنے والے احبار و رہبان تھے یا خلیفہ راشد؟ اور کیا بقیہ صحابہ نے ان کو یہود کی طرح "ارباب من دون الله" بنایا تھا؟ ٧) حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے بعد دور_عثمانی میں کتنے صحابہ_کرام (رضی اللہ عنہم) الله و رسول (صلی الله علیہ وسلم) کے ارشاد پر فتویٰ دیتے اور کتنے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے قول پر؟ اور خود حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کس کے ساتھ تھے؟٨) حضرت علی ( (رضی اللہ عنہ) کے زمانہ_خلافت میں ان کا اپنا فتویٰ اور ان کے مفتیوں کا فتویٰ الله و رسول (صلی الله علیہ وسلم) کی شریعت پر رہا حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی؟ نوٹ : صرف الله اور رسول ہی کے اقوال کو دلیل و حجت ماننے والے غیر-مقلد اہل_حدیث حضرات ان سوالوں کا جواب اپنے دعویٰ اور اصول کے مطابق کسی غیر-معصوم کے اقوال کے سواۓ صرف قرآن و حدیث ہی سے دیں. شکریہ
یہ ہے حدیث حضرت ابن عباس کا مطلب محدثین کی نظر میں اور یہی تشریح اور مقصد صحیح ہے۔ جو مطلب غیر مقلدین بیان کرتے ہیں، وہ صحیح نہیں۔ اس لئے کہ راوی حدیث حضرت عبد اللہ ابن عباس نے خود تین طلاقوں کے نفاذ کا فتویٰ دیا ہے، جیساکہ مذکور ہوچکا ہے۔
علامہ ابن قیم نے بھی باوجود اس تشدد وتصلب کے جوان کو اس مسئلہ میں تھا، حضرت ابن عباس کے اس فتویٰ ”ایک مجلس میں تین طلاقیں تین ہیں اور اس کے بعد رجعت جائز نہیں“ سے انکار نہیں کیا، بلکہ اس فتویٰ کے ثابت ہونے کا صاف اقرار کیا ہے۔ چنانچہ (اغاثة اللفہان) میں فرماتے ہیں:
”فقد صح بلاشک ابن مسعود وعلی ابن عباس الالزام بالثلاث ان اوقعہا جملة“۔ (ص:۱۷۹)؛
اور چونکہ یہ مسئلہ حلال وحرام کے متعلق ہے، اگر واقعی تین کو ایک سمجھا جاتا تو اس کے راوی صرف حضرت ابن عباس ہی کیوں ہیں، ان کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے اس کے بارے میں کوئی روایت نہیں ہے، جبکہ ان سے بڑے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق اس کے برخلاف فیصلہ فرماتے ہیں اور یہ صحابہ کرام کے سامنے کی بات ہے اور ایک صحابی نے بھی اس حکم کے خلاف نہیں کیا جس سے اس مسئلہ پر ان کا اجماع معلوم ہوتا ہے۔الغرض تین طلاقیں شرعاً واقع ہوچکی ہیں، بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ سے حرام ہوگئی ہے، گمراہ لوگوں سے فتویٰ لے کر حرام کو حلال بنانے کی کوشش کرنا بدترین گناہ ہے، لہذا دونوں میں علیحدگی ضروری ہے، بصورت دیگر اگرایک ساتھ رہے تو حرام کے اندر مبتلا ہوں گے چنانچہ حدیث میں ہے:
”من اعلام الساعة… وان یکثروا اولاد الزنا قیل لابن مسعود وہم مسلمون ! قال نعم: یاتی علی الناس زمان یطلق الرجل المرأة طلقہا فیقیم علی فراشہا منہما زانیان ما اقاما“۔ (الخصائص الکبری للسیوطی ج:۲/۲۷۰ ط حقانیہ)؛
ترجمہ:…اور قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ زنا کی اولاد کی کثرت ہوجائے گی، پوچھا گیا حضرت ابن مسعود سے کیا وہ مسلمان ہوں گے؟ فرمایا: ہاں! وہ مسلمان ہوں گے، ایک زمانہ آئے گا لوگوں پر کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا، لیکن پھر بھی اس کے ساتھ اس کے بستر پر رہے گا جب تک دونوں اس طرح رہیں گے زنا کار ہوں گے“۔
”قال:یاتی علی الناس زمان یطلق الرجل المرأة ثم یجہدہا طلاقہا ثم یقیم علی فرجہا فہما زانیان ما اقاما…“
(المعجم الاوسط للطبرانی ج:۵/۴۴۲)
ترجمہ:…فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے گا پھر طلاق دینے سے انکار کرے گا پھر اس سے ہم بستری کرتا رہے گا پس جب تک وہ دونوں اس طرح رہیں گے زناکار ہوں گے“۔
لہذا صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی تھیں، سائل نے بغیر حلالہ شرعی جو دوبارہ نکاح کرکے ایک عرصہ ساتھ گذاراہے، دونوں حرام کاری میں مبتلا رہے، فی الفور علیحدگی کے بعد دونوں پر توبہ و استغفار لازم ہے۔
==========================================
مملکت عربیہ سعودیہ کے بڑے علماء کی آفیشل ویب سائٹ سے