RAJAB KE KUNDE KI HAKIKAT
رجب کے کونڈے... حقیقت کیا ہے؟
مولانا محمدانس رضوان
افسانے اور کہانیاں اکثر من گھڑت اور جھوٹ کا پلندہ ہوا کرتی ہیں اور حقیقت کا دور ،دور تک اس سے تعلق نہیں ہوتا۔لیکن عوام کے ہاں بسا اوقات یہ من گھڑت افسانے مستند تواریخ کا درجہ پالیتے ہیں ،بالخصوص جبکہ عوام کے سامنے ایسے من گھڑت افسانوں کو اگرمذہبی رنگ میں پیش کیا جائے تو اکثر عوام بغیر سوچے سمجھے اس کے سچ ہونے پر آنکھ بند کرکے عمل کرلیتے ہیں اور بڑی عقیدت کے ساتھ اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ذیل کا افسانہ بھی اسی طرح کی ایک من گھڑت کہانی ہے، جسے امامیہ مسلک کے علمبردار ایک رافضی افسانہ نگار نے سید السادات حضرت امام جعفر صادق کی ایک کرامت قرار دے کر ”داستان عجیب “ کے عنوان سے لکھا ۔
اب سے کوئی نّوے ،پچانوے برس قبل تک رجب کے کونڈوں کو کوئی سنی مسلمان جانتا تک نہیں تھا۔ لیکن جب سے یہ کتاب شائع ہوئی اس کے بعد سے یہ رسم ایک متعدی مرض کی طرح سنی عوام میں بھی پھیل گئی اور اب تک بدستور پھیلتی جارہی ہے۔ آئیے قارئین کرام ! اس من گھڑت افسانے کو پڑھتے ہیں اور اس کا تنقیدی، تحقیقی اور تقابلی نظر سے ایک جائزہ لیتے ہیں کہ جس کے ذریعے سنی عوام کے درمیان اس افسانے کو پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے اور دیکھتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا حقیقت کار فرما ہے؟
کہانی کچھ اس طرح سے گھڑی گئی ہے کہ ایک لکڑہارا جو عیال کے کثیر ہونے اور اسباب روزی کے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات فقروفاقہ کا شکار رہا کرتا تھا اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر انہیں بیچ کر گزر بسر کیا کر تا اور جس دن لکڑیاں نہ ملتیں اس دن فاقہ کرتا، ان حالات سے تنگ آکر لکڑہارا روزی کو تلاش کرنے کی غرض سے دیس سے پردیس چلا گیا لیکن جب وہاں پر بھی اور کوئی روزی کمانے کا ذریعہ میسر نہ ہوا تو پھر اس نے وہاں پر بھی لکڑیاں کاٹنے پر ہی گزارا کر لیا۔ اُدھر گھر میں جب اس کے بیوی بچوں پر کچھ دن فاقے کے گزرے توخود انہوں نے کمانے کی سوچی اور لکڑہارے کی بیوی نے وزیر مدینہ کے ہاں جا روب کشی کی نوکری کرلی اور اب اس پر ان کی گزر بسر ہونے لگی، ایک دن (یہی لکڑہارے کی بیوی) خادمہ ڈیوڑھی میں جھاڑو دے رہی تھی تو وہاں سے حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کا اپنے احباب کے ساتھ گزر ہوا۔ پوچھا آج کونسا مہینہ ہے اور چاند کی کونسی تاریخ ہے؟ احباب نے بصدادب عرض کیا کہ یہ رجب کا مہینہ ہے اور چاند کی22 تاریخ ہے۔ پھر پوچھا کہ معلوم ہے تم کو کہ رجب کی 22 تاریخ کی کیا فضیلت ہے؟ جب عقیدت مندوں نے اس پر لاعلمی کا اظہار کیا تو حضرت امام جعفر نے فرمایا:سنو! اس تاریخ کی بڑی فضیلت ہے، جو پریشان حال چاہے وہ کسی بھی مصیبت میں مبتلا ہو اس کو چاہیے کہ رجب کی 22 کو نہا دھو کر عقیدت کے ساتھ میرے نام کے کونڈے بنائے، پھر پوریاں پکا کر کونڈوں میں بھر کر ہمارے نام کی فاتحہ دلائے اور میرا ہی وسیلہ پکڑ کر خدا تعالیٰ سے دعا کرے تو اس کی ہر مشکل رفع ہوجائے اور ہر کام پورا ہوجائے اور اگر اس کام (یعنی کونڈے بھرنے) کے بعد بھی کسی کی حاجت رفع نہ ہو تو قیامت کے دن وہ میرا دامن پکڑ سکتا ہے اور مجھ سے اس کی باز پرس کرسکتا ہے۔ حضرت امام جعفر نے یہ سب کچھ فرمایا اور وزیر کی ڈیوڑھی سے گزر گئے ۔ لکڑہارے کی خستہ حال بیوی کو، جو کہ ڈیوڑھی میں جھاڑو دے رہی تھی، گردشِ دوراں سے چھٹکارے کا یہ خاص گر جب حضرت امام جعفر کی زبانی معلوم ہوا تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور اس نے اسی دن پورے اہتمام سے نہا دھو کر پوریاں پکا کر کونڈوں میں بھریں اور پھر بڑے صدق دل سے حضرت امام جعفر کا اس پر فاتحہ کروایا اور دعا کی کہ اے خدا عزوجل! حضرت امام کے صدقے میرے دن پھیر دے اور میرا شوہر گھر واپس آجائے اور جب آئے تو اپنے ساتھ مال و دولت بھی ساتھ لائے۔ اب اُدھر کی سنیے!لکڑہارا جو کئی برس سے عسرت میں زندگی گزار رہا تھا اور فقر و فاقہ کا شکار تھا۔ اِدھر جیسے ہی لکڑہارے کی بیوی نے حضرت امام کے نام کے کونڈے بھرے اور فاتحہ کروائی۔ اُدھر لکڑہارے کے دن بدل گئے اور اسی وقت لکڑہارا جو کہ لکڑیاں کاٹنے میں مصروف تھا کہ اچانک اس کا کلہاڑا ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر آگرا اور دھماکے کی سی آواز سنائی دی اور زمین خالی خالی سی محسوس ہوئی، پھر جب لکڑہارے نے اس جگہ سے زمین کو کھودا تو وہاں سے ایک بہت بڑا خزانہ اور ایک عظیم الشان شاہی دفینہ برآمد ہوا اور پھر اس کے بعد زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ لکڑہارا مال دار ہوگیا اور اس کے دن پھر گئے۔ لکڑہارے نے اس کے بعد اپنی زندگی میں امیر پنے کا سدھار پیدا کیااور پھر نوکر چاکر، غلام باندیاں، گھوڑے اونٹ اور سارا مال متاع لے کر مدینہ کو روانہ ہوا اور وزیر کے محل کے قریب ہی اپنا محل تعمیر کرایا اور شان و شوکت سے رہنے لگا۔ لیکن وزیر کی بیوی کو اس حیرت انگیز تعمیری انقلاب کی بالکل خبر نہ ہوئی اور ایک دن اتفاقاً جب وزیر کی بیوی نے چھت پر چڑھ کر اپنے محل کے قریب ایک اور عالیشان محل دیکھا تو اس کو بڑا تعجب ہوا کہ اب تک میرے محل کے ساتھ جو جگہ بالکل صاف اور چٹیل میدان تھی آج اس پر ایک عظیم الشان محل آسمان سے باتیں کررہا ہے۔ وزیر کی بیوی نے خادماؤں کو بلا کر اس محل کی بابت پوچھا، جواباً سب یک زبان بولیں کہ یہ اس لکڑہارے کا محل ہے، جس کی بیوی کبھی آپ کے ہاں جاروب کشی کیا کرتی تھی۔ ملکہ نے لکڑہارے کی بیوی کو بلوایا، تاکہ اس سے پوچھے کہ یہ کیا ماجرا ہے، جو تم فقر و فاقہ سے اس متمول زندگی میں منتقل ہوگئے؟ اس پر لکڑہارے کی بیوی نے حضرت امام جعفر صادق کے ارشاد کے مطابق کونڈے بھرنے اور ان کی برکت سے خزانہ ہاتھ لگنے کی مکمل داستان سنا دی، جس پر ملکہ کو یقین نہ آیا اور مسکرا کر کہنے لگی کہ تمہارے شوہر نے راہزنی کرکے یہ سب مال و متاع حاصل کیا ہے۔ لیکن جب لکڑہارے کی بیوی کے اطمینان دلانے پر بھی ملکہ نے کونڈوں کی فضیلت کو تسلیم نہ کیا تو ان پر ایک غیبی عتاب نازل ہوا کہ اس ملکہ کا شوہر بادشاہ کا بڑا وزیر تھا اور بہت قریبی تھا ،اس قربت پر ایک چھوٹا وزیر ہمیشہ سے دل کے اندر جلتا رہتا اور دن رات شاہی دربار میں بڑے وزیر کو نیچا دکھانے کی تدابیر کرتا رہتا، ایک مرتبہ موقع پاکر اس نے بادشاہ کے خوب کان بھرے اور راز داری کے ساتھ بادشاہ کے گوش گزار کیا کہ بڑا وزیر بہت بڑا خائن ہے، اس نے خیانت کے ذریعہ سرکار کی بڑی دولت پر قبضہ کررکھا ہے، اگر آپ کو یقین نہ ہو تو بے شک حساب، جانچ پڑتال کرکے دیکھ لیجیے بادشاہ نے حکم دیا کہ بڑے وزیر کی فوراً جانچ پڑتال کی جائے اور جب شاہی حکم سے وزیر کی جانچ پڑتال کرائی گئی تو شاہی خزانے کا لاکھوں کا غبن بڑے وزیر کی طرف نکلا، بادشاہ کو جلال آگیا اور اس نے فوراً ہی بڑے وزیر کو عہدہ وزارت عظمیٰ سے معزول کردیااور اس کی ساری جائیداد مال و متاع، ضبط کرکے اسے شہر بدر ہونے کا حکم دیا۔ جو وزیر کل تک حکومت کے ہر سیاہ و سفید کا مالک تھا آج جب اس پر شاہی عتاب نازل ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر اسے اپنی بیگم کے ساتھ خالی ہاتھ اس حال میں جانا پڑا کہ بیوی کی جیب میں صرف دو درہم تھے، چلتے ہوئے راستے میں کسی جگہ خربوزے بکتے دیکھ کر بیوی نے ایک درہم کے عوض ایک خربوزہ خرید لیا اور اسے ایک دستی رومال میں باندھ لیا کہ بوقت ضرورت بھوک کی تکلیف سے کچھ نہ کچھ نجات حاصل کی جاسکے۔ جس دن وزیر کو شاہی حکم سے شہر بدر کیا گیا تھا اسی دن شہزادہ صبح سویرے سیر کو نکلا تھا، جب شام تک شہزادہ واپس نہ لوٹا تو چھوٹے وزیر نے حسب سابق موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شاہی آداب بجا لاکر دربار میں حاضری دی اور کہا۔ جہان پنا! شہزادے صاحب جس راستے سے شکار کو گئے تھے اسی راہ سے معزول وزیر اعظم صاحب کو بھی جاتے دیکھا گیا ہے۔ نصیب دشمناں کہیں ایسا نہ ہو کہ راہ میں وزیر صاحب انتقاماً شہزادے کو کوئی گزند پہنچا دیں۔ یہ سن کر بادشاہ نے چاروں طرف سوار دوڑا دیے کہ جہاں کہیں بھی وزیر ملے اسے گرفتار کرکے پیش کیا جائے، سوار گئے اور دم کے دم میں معزول وزیر کو گرفتار کرکے پا بہ زنجیر کرکے بادشاہ کے حضور پیش کردیا۔ وزیر کے ہاتھ میں رومال میں بندھی ہوئی چیز کے متعلق جب بادشاہ نے استفسار کیا تو وزیر نے کہا کہ جناب حضور! اس میں خربوزہ بندھا ہوا ہے اور وزیر نے اسے بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیا،بادشاہ نے جو رومال کھول کر دیکھا تو اس میں بجائے خربوزہ کے شہزادے کا خون میں لتھڑا ہوا سر برآمد ہوا، جسے دیکھ کر شاہی غم و غصہ کی کوئی انتہا نہ رہی اور حکم دیا کہ وزیر کو مع اہلیہ کے جیل بھیج دیا جائے اور صبح دونوں کو پھانسی دے دی جائے۔ جیل چلے جانے کے بعد معتوب وزیر نے اپنی غم زدہ بیوی سے پوچھا اور کہا کہ معلوم نہیں کہ بارگاہ ایزدی میں ہم سے ایسی کونسی خطا سرزد ہوگئی ہے جس کا خمیازہ ہمیں اس بے پناہ مصیبت میں بھگتنا پڑا؟ پہلے وزارت گئی، پھر مال و متاع ضبط کرکے شہر بدر کیا گیا اور پھر خربوزے کا شہزادے کا سر بن جانا اور پھر اس پر بس نہیں، بلکہ کل صبح سویرے ہمیں پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا، اب جائزہ لیتے ہیں اور پھر جس غلطی کا پتہ چلے گا اس سے فوراً توبہ کرکے حق سبحانہ و تقدس سے معافی مانگ لیں گے۔ بیوی نے کہا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مجھ سے تو ایسی کوئی غلطی اور گناہ سرزد نہیں ہوا، لیکن میں نے حضرت امام جعفر صادق کے کونڈوں کے عقیدے پر ایمان لانے میں ضرور انکار کردیا تھا۔ پھر بیوی نے لکڑہارے کی بیوی کے کونڈے بھرنے اور کونڈوں کی کرامت سے دم کے دم میں مال دار ہونے کا قصہ سنا دیا۔ وزیر نے قصہ سن کر کہا تم نے حضرت امام کے قول کی تصدیق نہیں کی اور حضرت کے بتائے ہوئے طریقے پر کونڈے بھرنے کے عقیدے پر تو ایمان نہ لائے تھی، یہ حضرت امام جعفر کی شان میں تمہاری طرف سے بہت بڑی گستاخی تھی اور اسی کا یہ سارا وبال ہم پر پڑا ہے۔ بیوی نے بھی اسی بات پر یقین کرلیا اور دعا کی کہ اگر اس مصیبت سے نجات مل گئی تو پھر آئندہ ہم حضرت امام کے نام کے کونڈے ضرور بھریں گے اور پھر رات بھر حضرت امام کے وسیلے سے دعا کرنے میں مشغول رہے، اِدھر جیسے ہی وزیر کی بیوی نے کونڈے بھرنے کا عہد کیا اُدھر ویسے ہی حالات نے اپنا رنگ بدلا اور صبح سویرے شہزادہ گھر واپس پہنچ گیا۔ شہزادے کو دیکھ کر بادشاہ کی خوشی، حیرت و استعجاب کی کوئی انتہا نہ رہی اور پھر بادشاہ نے وزیر اور اس کی بیوی کو جیل سے طلب کیا اور پھر جب رومال کھول کر دیکھا گیا تو اس میں شہزادے کے سر کے بجائے وہی خربوزہ برآمد ہوا، بادشاہ نے معتوب وزیر سے اس سارے ماجرے کی تفصیل پوچھی، جس کے جواب میں وزیر نے کونڈوں کے بارے میں حضر ت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کے ارشاد گرامی سے لے کر لکڑہارے کے واقعے تک کی پوری داستان، سرگزشت، تفصیل سے سنا دی اور عرض کیا کہ جہان پناہ! حقیقت یہ ہے کہ میری بیوی نے حضرت کے قول کی تصدیق نہیں کی تھی اور اسے جھٹلایا تھا اور کونڈے بھرنے کے عقیدے سے اظہار بیزاری کیا تھا، اسی کی پاداش میں ہم کو ذلت و رسوائی کے یہ دن دیکھنا پڑے، ورنہ کہاں یہ نمک خوار خادم اور کہاں خزانہ عامرہ سے لاکھوں کی خیانت اور کہاں غبن کا ارتکاب! بادشاہ وزیر کے حالات سن کر بہت متاثر ہوا۔ اور اسی وقت پھر سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر اسے فائز کردیا اور تلافی مافات کے طور پر مزید ایک خلعتِ فاخرہ سے بھی نوازا اور چھوٹا سازشی وزیر اسی وقت راندہ دربار ہوا۔ پھر شاہی محل سے لے کرکا شانہ وزیر تک بڑی دھوم دھام سے اور بڑے ہی شاہانہ اہتمام کے ساتھ کونڈے بھرنے کی رسم ادا کی گئی اور پھر وزیر کی بیوی تو زندگی بھر ہمیشہ بڑی عقیدت کے ساتھ ہر سال حضرت امام کے کونڈے بھرتی رہی۔ ”لاحول ولا قوّة الا باللہ العظیم“ ․
افسانے کا ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ
یہ لغو کہانی خود ظاہر کرتی ہے کہ:
اس کا گھڑنے والا لکھنو کا کوئی جاہل تھا، جس کو اتنا بھی علم نہ تھا (اور ویسے بھی مثل مشہور ہے کہ ”دروغگورا حافظہ نباشد“ افسانہ نگار نے اپنے قصے کی بنیاد مدینہ میں بادشاہ اور وزیر کے وجود پر رکھی ہے حالاں کہ) کہ مدینہ منورہ میں اور نہ صرف مدینہ، بلکہ پورے عرب میں نہ حضرت امام کے زمانے میں نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کوئی بادشاہ ہوا ہے اور نہ وزیر اعظم ،کیوں کہ اس وقت عرب میں خلافت قائم تھی، جس میں نہ تو بادشاہ اور نہ وزیر اعظم کا کوئی منصب و عہدہ تھا۔
عربوں میں میدے کی پوریاں گھی میں پکا کر کونڈوں میں بھرنے اور فاتحہ دلانے کا رواج آج تک نہ تھا اور نہ ہوا۔
حضرت جعفر بن محمد کی عمر کے52 سال تک تو بنو امیہ کی خلافت رہی۔ جس کا صدر مقام دمشق (ملک شام) تھا، مگر ان کی خلافت میں بھی وزیراعظم کا کوئی عہدہ نہ تھا۔
اس کے بعد تقریباً 16 سال تک آپ خلافت عباسیہ میں رہے، جس کا صدر مقام بغداد (عراق) تھا، ان کے ہاں بھی آپ کی موجودگی میں وزارت کا عہدہ قائم نہ ہوا تھا۔
یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ حضرت امام نے اپنی زندگی ہی میں اپنی فاتحہ کرانے کا حکم خود اپنی ہی زبانِ مبارک سے دیا، حالاں کہ ایصالِ ثواب یا فاتحہ کسی کی بھی ہو وفات کے بعدہی ہوا کرتی ہے تو پھر حضرت امام نے اپنی زندگی ہی میں اپنے نام کے کونڈے بھروانے اور فاتحہ کرانے کا حکم کیسے دے دیا ؟ بلکہ آپ کا دامن تو ایسی لغو باتوں سے پاک ہے۔
اس لکڑہارے کا قصہ نہ کبھی مدینہ کی گلیوں میں گونجا، نہ عرب ممالک میں کہیں سنائی دیا اور نہ ہی مشرق و مغرب کے کسی اسلامی ملک میں کہیں پہنچا۔
حضرت جعفر بن محمد علیہ الرحمة8 رمضان المبارک 80 ھ اور بروایت دیگر 17 ربیع الاوّل 83ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے ، لیکن وفات کے متعلق شیعہ، سنی سب ہی کا اتفاق ہے کہ آپ نے 15 شوال 148ھ کو مدینہ منورہ ہی میں وفات پائی ان کی زندگی کے حالات معروف و مشہور ہیں، لہٰذا 22 رجب کی تاریخ کی کوئی تخصیص نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ نہ تو آپ کی تاریخ ولادت ہے اور نہ ہی تاریخ وفات۔
جس طرح اسرائیلی قوم عجائب پرست تھی اور ہر مدعی نبوت سے معجزات و کرامات کے ظہور کی آرزو مند رہتی تھی اسی طرح اودھ کی شیعہ ریاست کے ماتحت رام اور لچھن کے دیس کے خالص ہندو معاشرے میں رہنے والے عوام کا لانعام بھی ہندو دیو مالاؤں اور رامائن کے من گھڑت قصے سن سن کر عجائب پرست بن گئے تھے اور لکھنو کے داستان گو یوں کو تو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ انہوں نے نوابوں کی سرپرستی میں طلسمِ ہوش رُبا اور ”داستانِ عجیب “ جیسی طویل داستانیں گھڑ کر ہندو دیو مالاؤں کو بھی مات کر دیا تھا، لہٰذا لکھنوی معاشرے میں بزرگانِ سلف کی طرف منسوب اور اخترا ع کردہ حکایات کا قبولِ عام حاصل کر لینا کوئی مشکل بات نہ تھی، کیونکہ اس کے لیے نہ کسی سند کی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی ضابطے کی۔
جس چیز کودینی طور پر پیش کیا جائے اس کے جواز کی سند تو ضابطہ دین سے ہی پیش کی جانی چاہیے، سورة الانعام آیت 17 میں ارشاد باری تعا لٰی ہے کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اللہ تعالٰی کے سوا اسے کوئی رد نہیں کر سکتا اور اگر وہ تم کو کوئی فائدہ پہنچائے توبھی اسے قدرت حاصل ہے“ لہٰذا غیر اللہ سے کوئی مراد مانگنا شرک ہے، جو نا قابلِ معافی گناہ ہے ۔سورة ال عمران آیت104۔
پھر اگر حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ سے متعلق لکڑہارے کا پورا افسانہ اپنے اندر کوئی تاریخی حقیقت رکھتا تو سوچنے کی اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ تاریخِ اسلامی یا بزرگوں کے حالات کی کسی مستند و معتبر کتاب میں اس عظیم واقعہ کا کوئی ذکر کیوں نہیں آیا؟ ” تلک عشرة کاملة “ اس قصے میں جو منظر کشی کی گئی ہے اس سے بخوبی واضح ہو گیا کہ یہ افسانہ ہندوستان کے کسی راجہ یا راجدھانی کا تو ہو سکتا ہے، مگر عرب قبیلے یا فرد کا ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح شیعوں نے سنی مسلم عوام کو دین سے گمراہ کرنے کے لیے اور چند جھوٹی اور فرضی کتابیں لکھ ماری ہیں اسی طرح یہ ”داستانِ عجیب“ بھی ایک فرضی اور من گھڑت جھوٹا افسانہ ہے ، مگر بے چارے توہم پرست اور عجوبہ پسند مسلم عوام میں کہاں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ سامنے کی دلچسپ بات کو چھوڑ کر معا ملے کی تہہ اور اصل حقیقت تک پہنچیں۔شروع شروع میں تو عرصے تک یہ رسم دبی دبی شیعوں کے حلقے میں محدود رہی ، لیکن پھر شیعوں نے سوچا کیوں نہ تعزیہ داری کی طرح کسی خوبصورت فریب اور تقیہ سے کام لے کر سنیوں کو بھی وفاتِ امیر معاویہ کے سلسلے کے اس جشنِ مسرت میں غیر شعوری طور شریک کر لیا جائے، چنانچہ انہوں نے حضرت امیرمعاویہ کے تاریخِ وفات ”۲۲“ رجب پر فریب کا پردہ ڈالنے کے لیے اس تاریخ کو حضرت امام جعفر کی طرف منسوب کر دیا اور لکڑہارے وغیرہ کا فرضی افسانہ گھڑا اور ”داستانِ عجیب“ اور ” نیازنامہ“ وغیرہ حضرت امام جعفر صادق کے نام سے چھپوا کر چہار دانگ عالم میں پھیلادیا ۔
مرحوم مولانا حکیم عبد الغفور ہشیارآنولوی نے ”رجب کے کونڈے“ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ سپردِقلم کیا تھا ،جو ”صحیفہ اہلِحدیث“ کراچی 14 اگست 1964کی اشاعت میں شائع ہوا تھا ، مولانا مرحوم نے بھی اپنے اس مقالے میں یہی لکھا ہے کہ کونڈوں کی کتاب ”داستانِ عجیب“ کی اشاعت اور کونڈوں کی عام ترویج پر اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا تھا ، پس ”الناس علی دین ملو کھم“ کے تحت اور نواب کی رضا جوئی کی خاطر رام پور کے سنی مسلمانوں نے بھی اس زمانہ میں اس رسم کو اپنانا شروع کر دیا تھا،پھر یہ رسم رام پور سے لکھنو پہنچی، 1911تک اس کا روز افزوں ترقیات کے ساتھ پورے اودھ، روہلکھنڈ اور دوسرے مقامات پر پھیلاؤشروع ہوگیا تھا ۔
بائیس رجب کی حقیقت
22 رجب 60ھ کو امیر المومنین ، امام المتقین ، خال المسلمین ، کاتبِ وحی، رسول صلی الله علیہ وسلم کے خاص معتمد اور عصائے اسلام حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی الله عنہما نے اسلام اور مسلمانوں کی پچاس سال تک خدمت کرنے کے بعد وفات پائی تھی، روافض جس طرح امیر المومنین خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کی شہادت کی خوشی میں ان کے مجوسی قاتل ابولولو فیروز کو بابا شجاع کہہ کر عید مناتے ہیں اسی طرح وہ حضرت امیر معاویہ کی رحلت کی خوشی میں 22 رجب کو یہ تقریب مناتے ہیں، لیکن پردہ پوشی کے لیے ایک روایت گھڑ کر حضرت جعفر بن محمد کی طرف منسوب کر دی ہے، تاکہ راز فاش ہونے سے رہ جائے اور دشمنانِ معاویہ چپکے سے ایک دوسرے کے یہاں بیٹھ کر یہ شیرینی کھا لیں اور یوں اپنی خوشی ایک دوسرے پر ظاہر کریں، ان کی تقیہ سازی اور پر فریب طریقہ کار سے حضرت جعفر کی نیاز کی دعوت میں کئی سادہ لوح، توہم پرست اور ضعیف الاعتقاد مسلمان بھی لاعلمی کی وجہ سے شریک ہو جاتے ہیں ۔
خبردار! کونڈے بھرنا زمانہٴ حال ہی کی ہندوستانی ایجاد ہے، لہٰذا اس گمراہی سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے ، کیوں کہ یہ صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم اور کاتب وحی کے دشمنوں کی تقریب ہے
اب ضرورت نہیں حجامت کی
رسمِ دنیا نے بے طرح مونڈا
بھر کے کونڈے رجب کے، بیوی نے
میرے گھر کا بھی کر دیا کونڈا
مولانا محمدانس رضوان
افسانے اور کہانیاں اکثر من گھڑت اور جھوٹ کا پلندہ ہوا کرتی ہیں اور حقیقت کا دور ،دور تک اس سے تعلق نہیں ہوتا۔لیکن عوام کے ہاں بسا اوقات یہ من گھڑت افسانے مستند تواریخ کا درجہ پالیتے ہیں ،بالخصوص جبکہ عوام کے سامنے ایسے من گھڑت افسانوں کو اگرمذہبی رنگ میں پیش کیا جائے تو اکثر عوام بغیر سوچے سمجھے اس کے سچ ہونے پر آنکھ بند کرکے عمل کرلیتے ہیں اور بڑی عقیدت کے ساتھ اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ذیل کا افسانہ بھی اسی طرح کی ایک من گھڑت کہانی ہے، جسے امامیہ مسلک کے علمبردار ایک رافضی افسانہ نگار نے سید السادات حضرت امام جعفر صادق کی ایک کرامت قرار دے کر ”داستان عجیب “ کے عنوان سے لکھا ۔
اب سے کوئی نّوے ،پچانوے برس قبل تک رجب کے کونڈوں کو کوئی سنی مسلمان جانتا تک نہیں تھا۔ لیکن جب سے یہ کتاب شائع ہوئی اس کے بعد سے یہ رسم ایک متعدی مرض کی طرح سنی عوام میں بھی پھیل گئی اور اب تک بدستور پھیلتی جارہی ہے۔ آئیے قارئین کرام ! اس من گھڑت افسانے کو پڑھتے ہیں اور اس کا تنقیدی، تحقیقی اور تقابلی نظر سے ایک جائزہ لیتے ہیں کہ جس کے ذریعے سنی عوام کے درمیان اس افسانے کو پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے اور دیکھتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا حقیقت کار فرما ہے؟
کہانی کچھ اس طرح سے گھڑی گئی ہے کہ ایک لکڑہارا جو عیال کے کثیر ہونے اور اسباب روزی کے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات فقروفاقہ کا شکار رہا کرتا تھا اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر انہیں بیچ کر گزر بسر کیا کر تا اور جس دن لکڑیاں نہ ملتیں اس دن فاقہ کرتا، ان حالات سے تنگ آکر لکڑہارا روزی کو تلاش کرنے کی غرض سے دیس سے پردیس چلا گیا لیکن جب وہاں پر بھی اور کوئی روزی کمانے کا ذریعہ میسر نہ ہوا تو پھر اس نے وہاں پر بھی لکڑیاں کاٹنے پر ہی گزارا کر لیا۔ اُدھر گھر میں جب اس کے بیوی بچوں پر کچھ دن فاقے کے گزرے توخود انہوں نے کمانے کی سوچی اور لکڑہارے کی بیوی نے وزیر مدینہ کے ہاں جا روب کشی کی نوکری کرلی اور اب اس پر ان کی گزر بسر ہونے لگی، ایک دن (یہی لکڑہارے کی بیوی) خادمہ ڈیوڑھی میں جھاڑو دے رہی تھی تو وہاں سے حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کا اپنے احباب کے ساتھ گزر ہوا۔ پوچھا آج کونسا مہینہ ہے اور چاند کی کونسی تاریخ ہے؟ احباب نے بصدادب عرض کیا کہ یہ رجب کا مہینہ ہے اور چاند کی22 تاریخ ہے۔ پھر پوچھا کہ معلوم ہے تم کو کہ رجب کی 22 تاریخ کی کیا فضیلت ہے؟ جب عقیدت مندوں نے اس پر لاعلمی کا اظہار کیا تو حضرت امام جعفر نے فرمایا:سنو! اس تاریخ کی بڑی فضیلت ہے، جو پریشان حال چاہے وہ کسی بھی مصیبت میں مبتلا ہو اس کو چاہیے کہ رجب کی 22 کو نہا دھو کر عقیدت کے ساتھ میرے نام کے کونڈے بنائے، پھر پوریاں پکا کر کونڈوں میں بھر کر ہمارے نام کی فاتحہ دلائے اور میرا ہی وسیلہ پکڑ کر خدا تعالیٰ سے دعا کرے تو اس کی ہر مشکل رفع ہوجائے اور ہر کام پورا ہوجائے اور اگر اس کام (یعنی کونڈے بھرنے) کے بعد بھی کسی کی حاجت رفع نہ ہو تو قیامت کے دن وہ میرا دامن پکڑ سکتا ہے اور مجھ سے اس کی باز پرس کرسکتا ہے۔ حضرت امام جعفر نے یہ سب کچھ فرمایا اور وزیر کی ڈیوڑھی سے گزر گئے ۔ لکڑہارے کی خستہ حال بیوی کو، جو کہ ڈیوڑھی میں جھاڑو دے رہی تھی، گردشِ دوراں سے چھٹکارے کا یہ خاص گر جب حضرت امام جعفر کی زبانی معلوم ہوا تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور اس نے اسی دن پورے اہتمام سے نہا دھو کر پوریاں پکا کر کونڈوں میں بھریں اور پھر بڑے صدق دل سے حضرت امام جعفر کا اس پر فاتحہ کروایا اور دعا کی کہ اے خدا عزوجل! حضرت امام کے صدقے میرے دن پھیر دے اور میرا شوہر گھر واپس آجائے اور جب آئے تو اپنے ساتھ مال و دولت بھی ساتھ لائے۔ اب اُدھر کی سنیے!لکڑہارا جو کئی برس سے عسرت میں زندگی گزار رہا تھا اور فقر و فاقہ کا شکار تھا۔ اِدھر جیسے ہی لکڑہارے کی بیوی نے حضرت امام کے نام کے کونڈے بھرے اور فاتحہ کروائی۔ اُدھر لکڑہارے کے دن بدل گئے اور اسی وقت لکڑہارا جو کہ لکڑیاں کاٹنے میں مصروف تھا کہ اچانک اس کا کلہاڑا ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر آگرا اور دھماکے کی سی آواز سنائی دی اور زمین خالی خالی سی محسوس ہوئی، پھر جب لکڑہارے نے اس جگہ سے زمین کو کھودا تو وہاں سے ایک بہت بڑا خزانہ اور ایک عظیم الشان شاہی دفینہ برآمد ہوا اور پھر اس کے بعد زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ لکڑہارا مال دار ہوگیا اور اس کے دن پھر گئے۔ لکڑہارے نے اس کے بعد اپنی زندگی میں امیر پنے کا سدھار پیدا کیااور پھر نوکر چاکر، غلام باندیاں، گھوڑے اونٹ اور سارا مال متاع لے کر مدینہ کو روانہ ہوا اور وزیر کے محل کے قریب ہی اپنا محل تعمیر کرایا اور شان و شوکت سے رہنے لگا۔ لیکن وزیر کی بیوی کو اس حیرت انگیز تعمیری انقلاب کی بالکل خبر نہ ہوئی اور ایک دن اتفاقاً جب وزیر کی بیوی نے چھت پر چڑھ کر اپنے محل کے قریب ایک اور عالیشان محل دیکھا تو اس کو بڑا تعجب ہوا کہ اب تک میرے محل کے ساتھ جو جگہ بالکل صاف اور چٹیل میدان تھی آج اس پر ایک عظیم الشان محل آسمان سے باتیں کررہا ہے۔ وزیر کی بیوی نے خادماؤں کو بلا کر اس محل کی بابت پوچھا، جواباً سب یک زبان بولیں کہ یہ اس لکڑہارے کا محل ہے، جس کی بیوی کبھی آپ کے ہاں جاروب کشی کیا کرتی تھی۔ ملکہ نے لکڑہارے کی بیوی کو بلوایا، تاکہ اس سے پوچھے کہ یہ کیا ماجرا ہے، جو تم فقر و فاقہ سے اس متمول زندگی میں منتقل ہوگئے؟ اس پر لکڑہارے کی بیوی نے حضرت امام جعفر صادق کے ارشاد کے مطابق کونڈے بھرنے اور ان کی برکت سے خزانہ ہاتھ لگنے کی مکمل داستان سنا دی، جس پر ملکہ کو یقین نہ آیا اور مسکرا کر کہنے لگی کہ تمہارے شوہر نے راہزنی کرکے یہ سب مال و متاع حاصل کیا ہے۔ لیکن جب لکڑہارے کی بیوی کے اطمینان دلانے پر بھی ملکہ نے کونڈوں کی فضیلت کو تسلیم نہ کیا تو ان پر ایک غیبی عتاب نازل ہوا کہ اس ملکہ کا شوہر بادشاہ کا بڑا وزیر تھا اور بہت قریبی تھا ،اس قربت پر ایک چھوٹا وزیر ہمیشہ سے دل کے اندر جلتا رہتا اور دن رات شاہی دربار میں بڑے وزیر کو نیچا دکھانے کی تدابیر کرتا رہتا، ایک مرتبہ موقع پاکر اس نے بادشاہ کے خوب کان بھرے اور راز داری کے ساتھ بادشاہ کے گوش گزار کیا کہ بڑا وزیر بہت بڑا خائن ہے، اس نے خیانت کے ذریعہ سرکار کی بڑی دولت پر قبضہ کررکھا ہے، اگر آپ کو یقین نہ ہو تو بے شک حساب، جانچ پڑتال کرکے دیکھ لیجیے بادشاہ نے حکم دیا کہ بڑے وزیر کی فوراً جانچ پڑتال کی جائے اور جب شاہی حکم سے وزیر کی جانچ پڑتال کرائی گئی تو شاہی خزانے کا لاکھوں کا غبن بڑے وزیر کی طرف نکلا، بادشاہ کو جلال آگیا اور اس نے فوراً ہی بڑے وزیر کو عہدہ وزارت عظمیٰ سے معزول کردیااور اس کی ساری جائیداد مال و متاع، ضبط کرکے اسے شہر بدر ہونے کا حکم دیا۔ جو وزیر کل تک حکومت کے ہر سیاہ و سفید کا مالک تھا آج جب اس پر شاہی عتاب نازل ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر اسے اپنی بیگم کے ساتھ خالی ہاتھ اس حال میں جانا پڑا کہ بیوی کی جیب میں صرف دو درہم تھے، چلتے ہوئے راستے میں کسی جگہ خربوزے بکتے دیکھ کر بیوی نے ایک درہم کے عوض ایک خربوزہ خرید لیا اور اسے ایک دستی رومال میں باندھ لیا کہ بوقت ضرورت بھوک کی تکلیف سے کچھ نہ کچھ نجات حاصل کی جاسکے۔ جس دن وزیر کو شاہی حکم سے شہر بدر کیا گیا تھا اسی دن شہزادہ صبح سویرے سیر کو نکلا تھا، جب شام تک شہزادہ واپس نہ لوٹا تو چھوٹے وزیر نے حسب سابق موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شاہی آداب بجا لاکر دربار میں حاضری دی اور کہا۔ جہان پنا! شہزادے صاحب جس راستے سے شکار کو گئے تھے اسی راہ سے معزول وزیر اعظم صاحب کو بھی جاتے دیکھا گیا ہے۔ نصیب دشمناں کہیں ایسا نہ ہو کہ راہ میں وزیر صاحب انتقاماً شہزادے کو کوئی گزند پہنچا دیں۔ یہ سن کر بادشاہ نے چاروں طرف سوار دوڑا دیے کہ جہاں کہیں بھی وزیر ملے اسے گرفتار کرکے پیش کیا جائے، سوار گئے اور دم کے دم میں معزول وزیر کو گرفتار کرکے پا بہ زنجیر کرکے بادشاہ کے حضور پیش کردیا۔ وزیر کے ہاتھ میں رومال میں بندھی ہوئی چیز کے متعلق جب بادشاہ نے استفسار کیا تو وزیر نے کہا کہ جناب حضور! اس میں خربوزہ بندھا ہوا ہے اور وزیر نے اسے بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیا،بادشاہ نے جو رومال کھول کر دیکھا تو اس میں بجائے خربوزہ کے شہزادے کا خون میں لتھڑا ہوا سر برآمد ہوا، جسے دیکھ کر شاہی غم و غصہ کی کوئی انتہا نہ رہی اور حکم دیا کہ وزیر کو مع اہلیہ کے جیل بھیج دیا جائے اور صبح دونوں کو پھانسی دے دی جائے۔ جیل چلے جانے کے بعد معتوب وزیر نے اپنی غم زدہ بیوی سے پوچھا اور کہا کہ معلوم نہیں کہ بارگاہ ایزدی میں ہم سے ایسی کونسی خطا سرزد ہوگئی ہے جس کا خمیازہ ہمیں اس بے پناہ مصیبت میں بھگتنا پڑا؟ پہلے وزارت گئی، پھر مال و متاع ضبط کرکے شہر بدر کیا گیا اور پھر خربوزے کا شہزادے کا سر بن جانا اور پھر اس پر بس نہیں، بلکہ کل صبح سویرے ہمیں پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا، اب جائزہ لیتے ہیں اور پھر جس غلطی کا پتہ چلے گا اس سے فوراً توبہ کرکے حق سبحانہ و تقدس سے معافی مانگ لیں گے۔ بیوی نے کہا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مجھ سے تو ایسی کوئی غلطی اور گناہ سرزد نہیں ہوا، لیکن میں نے حضرت امام جعفر صادق کے کونڈوں کے عقیدے پر ایمان لانے میں ضرور انکار کردیا تھا۔ پھر بیوی نے لکڑہارے کی بیوی کے کونڈے بھرنے اور کونڈوں کی کرامت سے دم کے دم میں مال دار ہونے کا قصہ سنا دیا۔ وزیر نے قصہ سن کر کہا تم نے حضرت امام کے قول کی تصدیق نہیں کی اور حضرت کے بتائے ہوئے طریقے پر کونڈے بھرنے کے عقیدے پر تو ایمان نہ لائے تھی، یہ حضرت امام جعفر کی شان میں تمہاری طرف سے بہت بڑی گستاخی تھی اور اسی کا یہ سارا وبال ہم پر پڑا ہے۔ بیوی نے بھی اسی بات پر یقین کرلیا اور دعا کی کہ اگر اس مصیبت سے نجات مل گئی تو پھر آئندہ ہم حضرت امام کے نام کے کونڈے ضرور بھریں گے اور پھر رات بھر حضرت امام کے وسیلے سے دعا کرنے میں مشغول رہے، اِدھر جیسے ہی وزیر کی بیوی نے کونڈے بھرنے کا عہد کیا اُدھر ویسے ہی حالات نے اپنا رنگ بدلا اور صبح سویرے شہزادہ گھر واپس پہنچ گیا۔ شہزادے کو دیکھ کر بادشاہ کی خوشی، حیرت و استعجاب کی کوئی انتہا نہ رہی اور پھر بادشاہ نے وزیر اور اس کی بیوی کو جیل سے طلب کیا اور پھر جب رومال کھول کر دیکھا گیا تو اس میں شہزادے کے سر کے بجائے وہی خربوزہ برآمد ہوا، بادشاہ نے معتوب وزیر سے اس سارے ماجرے کی تفصیل پوچھی، جس کے جواب میں وزیر نے کونڈوں کے بارے میں حضر ت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کے ارشاد گرامی سے لے کر لکڑہارے کے واقعے تک کی پوری داستان، سرگزشت، تفصیل سے سنا دی اور عرض کیا کہ جہان پناہ! حقیقت یہ ہے کہ میری بیوی نے حضرت کے قول کی تصدیق نہیں کی تھی اور اسے جھٹلایا تھا اور کونڈے بھرنے کے عقیدے سے اظہار بیزاری کیا تھا، اسی کی پاداش میں ہم کو ذلت و رسوائی کے یہ دن دیکھنا پڑے، ورنہ کہاں یہ نمک خوار خادم اور کہاں خزانہ عامرہ سے لاکھوں کی خیانت اور کہاں غبن کا ارتکاب! بادشاہ وزیر کے حالات سن کر بہت متاثر ہوا۔ اور اسی وقت پھر سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر اسے فائز کردیا اور تلافی مافات کے طور پر مزید ایک خلعتِ فاخرہ سے بھی نوازا اور چھوٹا سازشی وزیر اسی وقت راندہ دربار ہوا۔ پھر شاہی محل سے لے کرکا شانہ وزیر تک بڑی دھوم دھام سے اور بڑے ہی شاہانہ اہتمام کے ساتھ کونڈے بھرنے کی رسم ادا کی گئی اور پھر وزیر کی بیوی تو زندگی بھر ہمیشہ بڑی عقیدت کے ساتھ ہر سال حضرت امام کے کونڈے بھرتی رہی۔ ”لاحول ولا قوّة الا باللہ العظیم“ ․
افسانے کا ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ
یہ لغو کہانی خود ظاہر کرتی ہے کہ:
اس کا گھڑنے والا لکھنو کا کوئی جاہل تھا، جس کو اتنا بھی علم نہ تھا (اور ویسے بھی مثل مشہور ہے کہ ”دروغگورا حافظہ نباشد“ افسانہ نگار نے اپنے قصے کی بنیاد مدینہ میں بادشاہ اور وزیر کے وجود پر رکھی ہے حالاں کہ) کہ مدینہ منورہ میں اور نہ صرف مدینہ، بلکہ پورے عرب میں نہ حضرت امام کے زمانے میں نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کوئی بادشاہ ہوا ہے اور نہ وزیر اعظم ،کیوں کہ اس وقت عرب میں خلافت قائم تھی، جس میں نہ تو بادشاہ اور نہ وزیر اعظم کا کوئی منصب و عہدہ تھا۔
عربوں میں میدے کی پوریاں گھی میں پکا کر کونڈوں میں بھرنے اور فاتحہ دلانے کا رواج آج تک نہ تھا اور نہ ہوا۔
حضرت جعفر بن محمد کی عمر کے52 سال تک تو بنو امیہ کی خلافت رہی۔ جس کا صدر مقام دمشق (ملک شام) تھا، مگر ان کی خلافت میں بھی وزیراعظم کا کوئی عہدہ نہ تھا۔
اس کے بعد تقریباً 16 سال تک آپ خلافت عباسیہ میں رہے، جس کا صدر مقام بغداد (عراق) تھا، ان کے ہاں بھی آپ کی موجودگی میں وزارت کا عہدہ قائم نہ ہوا تھا۔
یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ حضرت امام نے اپنی زندگی ہی میں اپنی فاتحہ کرانے کا حکم خود اپنی ہی زبانِ مبارک سے دیا، حالاں کہ ایصالِ ثواب یا فاتحہ کسی کی بھی ہو وفات کے بعدہی ہوا کرتی ہے تو پھر حضرت امام نے اپنی زندگی ہی میں اپنے نام کے کونڈے بھروانے اور فاتحہ کرانے کا حکم کیسے دے دیا ؟ بلکہ آپ کا دامن تو ایسی لغو باتوں سے پاک ہے۔
اس لکڑہارے کا قصہ نہ کبھی مدینہ کی گلیوں میں گونجا، نہ عرب ممالک میں کہیں سنائی دیا اور نہ ہی مشرق و مغرب کے کسی اسلامی ملک میں کہیں پہنچا۔
حضرت جعفر بن محمد علیہ الرحمة8 رمضان المبارک 80 ھ اور بروایت دیگر 17 ربیع الاوّل 83ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے ، لیکن وفات کے متعلق شیعہ، سنی سب ہی کا اتفاق ہے کہ آپ نے 15 شوال 148ھ کو مدینہ منورہ ہی میں وفات پائی ان کی زندگی کے حالات معروف و مشہور ہیں، لہٰذا 22 رجب کی تاریخ کی کوئی تخصیص نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ نہ تو آپ کی تاریخ ولادت ہے اور نہ ہی تاریخ وفات۔
جس طرح اسرائیلی قوم عجائب پرست تھی اور ہر مدعی نبوت سے معجزات و کرامات کے ظہور کی آرزو مند رہتی تھی اسی طرح اودھ کی شیعہ ریاست کے ماتحت رام اور لچھن کے دیس کے خالص ہندو معاشرے میں رہنے والے عوام کا لانعام بھی ہندو دیو مالاؤں اور رامائن کے من گھڑت قصے سن سن کر عجائب پرست بن گئے تھے اور لکھنو کے داستان گو یوں کو تو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ انہوں نے نوابوں کی سرپرستی میں طلسمِ ہوش رُبا اور ”داستانِ عجیب “ جیسی طویل داستانیں گھڑ کر ہندو دیو مالاؤں کو بھی مات کر دیا تھا، لہٰذا لکھنوی معاشرے میں بزرگانِ سلف کی طرف منسوب اور اخترا ع کردہ حکایات کا قبولِ عام حاصل کر لینا کوئی مشکل بات نہ تھی، کیونکہ اس کے لیے نہ کسی سند کی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی ضابطے کی۔
جس چیز کودینی طور پر پیش کیا جائے اس کے جواز کی سند تو ضابطہ دین سے ہی پیش کی جانی چاہیے، سورة الانعام آیت 17 میں ارشاد باری تعا لٰی ہے کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اللہ تعالٰی کے سوا اسے کوئی رد نہیں کر سکتا اور اگر وہ تم کو کوئی فائدہ پہنچائے توبھی اسے قدرت حاصل ہے“ لہٰذا غیر اللہ سے کوئی مراد مانگنا شرک ہے، جو نا قابلِ معافی گناہ ہے ۔سورة ال عمران آیت104۔
پھر اگر حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ سے متعلق لکڑہارے کا پورا افسانہ اپنے اندر کوئی تاریخی حقیقت رکھتا تو سوچنے کی اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ تاریخِ اسلامی یا بزرگوں کے حالات کی کسی مستند و معتبر کتاب میں اس عظیم واقعہ کا کوئی ذکر کیوں نہیں آیا؟ ” تلک عشرة کاملة “ اس قصے میں جو منظر کشی کی گئی ہے اس سے بخوبی واضح ہو گیا کہ یہ افسانہ ہندوستان کے کسی راجہ یا راجدھانی کا تو ہو سکتا ہے، مگر عرب قبیلے یا فرد کا ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح شیعوں نے سنی مسلم عوام کو دین سے گمراہ کرنے کے لیے اور چند جھوٹی اور فرضی کتابیں لکھ ماری ہیں اسی طرح یہ ”داستانِ عجیب“ بھی ایک فرضی اور من گھڑت جھوٹا افسانہ ہے ، مگر بے چارے توہم پرست اور عجوبہ پسند مسلم عوام میں کہاں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ سامنے کی دلچسپ بات کو چھوڑ کر معا ملے کی تہہ اور اصل حقیقت تک پہنچیں۔شروع شروع میں تو عرصے تک یہ رسم دبی دبی شیعوں کے حلقے میں محدود رہی ، لیکن پھر شیعوں نے سوچا کیوں نہ تعزیہ داری کی طرح کسی خوبصورت فریب اور تقیہ سے کام لے کر سنیوں کو بھی وفاتِ امیر معاویہ کے سلسلے کے اس جشنِ مسرت میں غیر شعوری طور شریک کر لیا جائے، چنانچہ انہوں نے حضرت امیرمعاویہ کے تاریخِ وفات ”۲۲“ رجب پر فریب کا پردہ ڈالنے کے لیے اس تاریخ کو حضرت امام جعفر کی طرف منسوب کر دیا اور لکڑہارے وغیرہ کا فرضی افسانہ گھڑا اور ”داستانِ عجیب“ اور ” نیازنامہ“ وغیرہ حضرت امام جعفر صادق کے نام سے چھپوا کر چہار دانگ عالم میں پھیلادیا ۔
مرحوم مولانا حکیم عبد الغفور ہشیارآنولوی نے ”رجب کے کونڈے“ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ سپردِقلم کیا تھا ،جو ”صحیفہ اہلِحدیث“ کراچی 14 اگست 1964کی اشاعت میں شائع ہوا تھا ، مولانا مرحوم نے بھی اپنے اس مقالے میں یہی لکھا ہے کہ کونڈوں کی کتاب ”داستانِ عجیب“ کی اشاعت اور کونڈوں کی عام ترویج پر اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا تھا ، پس ”الناس علی دین ملو کھم“ کے تحت اور نواب کی رضا جوئی کی خاطر رام پور کے سنی مسلمانوں نے بھی اس زمانہ میں اس رسم کو اپنانا شروع کر دیا تھا،پھر یہ رسم رام پور سے لکھنو پہنچی، 1911تک اس کا روز افزوں ترقیات کے ساتھ پورے اودھ، روہلکھنڈ اور دوسرے مقامات پر پھیلاؤشروع ہوگیا تھا ۔
بائیس رجب کی حقیقت
22 رجب 60ھ کو امیر المومنین ، امام المتقین ، خال المسلمین ، کاتبِ وحی، رسول صلی الله علیہ وسلم کے خاص معتمد اور عصائے اسلام حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی الله عنہما نے اسلام اور مسلمانوں کی پچاس سال تک خدمت کرنے کے بعد وفات پائی تھی، روافض جس طرح امیر المومنین خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کی شہادت کی خوشی میں ان کے مجوسی قاتل ابولولو فیروز کو بابا شجاع کہہ کر عید مناتے ہیں اسی طرح وہ حضرت امیر معاویہ کی رحلت کی خوشی میں 22 رجب کو یہ تقریب مناتے ہیں، لیکن پردہ پوشی کے لیے ایک روایت گھڑ کر حضرت جعفر بن محمد کی طرف منسوب کر دی ہے، تاکہ راز فاش ہونے سے رہ جائے اور دشمنانِ معاویہ چپکے سے ایک دوسرے کے یہاں بیٹھ کر یہ شیرینی کھا لیں اور یوں اپنی خوشی ایک دوسرے پر ظاہر کریں، ان کی تقیہ سازی اور پر فریب طریقہ کار سے حضرت جعفر کی نیاز کی دعوت میں کئی سادہ لوح، توہم پرست اور ضعیف الاعتقاد مسلمان بھی لاعلمی کی وجہ سے شریک ہو جاتے ہیں ۔
خبردار! کونڈے بھرنا زمانہٴ حال ہی کی ہندوستانی ایجاد ہے، لہٰذا اس گمراہی سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے ، کیوں کہ یہ صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم اور کاتب وحی کے دشمنوں کی تقریب ہے
اب ضرورت نہیں حجامت کی
رسمِ دنیا نے بے طرح مونڈا
بھر کے کونڈے رجب کے، بیوی نے
میرے گھر کا بھی کر دیا کونڈا
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
۲۲ رجب الموجب کے کونڈے اورانکی حقیقت
یہ رسم 1906ءمیں رام پور ( یوپی بھارت) سے شروع ہوئی ۔ اس کی ابتدا کرنے والا مشہور رافضی بغض امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا لاعلاج امیر مینائی تبرائی ملعون ہے ۔ جس نے خاص طو ر پر حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بغض و عناد کی بناءپر اس رسم بد ِ کو جار ی کیا ۔ یہ رسم قبیح 22/ رجب کو پوری کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ سیدنا جعفر صادق کی نیازہے جوان کی ولادت باسعادت پر دی جاتی ہے ۔ حالانکہ 22/ رجب نہ سیدنا جعفر صادق ؒ کا یوم ولادت ہے اور نہ ہی یوم وفات ہے۔ بلکہ یہ دن خال المسلمین کاتب وحی مبین، فاتح شام و روم وافریقہ، امیر المومنین، امام المتقین سیدنا ومولانا ابوعبدالرحمن معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا یوم وفات ہے۔
اس لئے متعصب رافضی امیر مینائی نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بغض میں اس رسم کے ذریعہ سے آپ کی وفات پر خوشی منائی۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے سنی بھائی بلا تحقیق رافضی وسبائی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر اس رسم کو (جوکہ سراسر صحابی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین ہے ) اختیار کر چکے ہیں۔ خصوصاً ہماری مائیں، بہنیں اپنی کم علمی کی وجہ سے اور دیکھا دیکھی اس مرض کا زیادہ شکار ہیں۔ یاد رہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ کی یوم ولادت 8/رمضان المبارک اور وفات 15/ شعبان ہے۔ لہٰذا سیدنا جعفر صادق ؒ کی ولادت یا وفات سے اس غلط رسم کا کوئی تعلق نہیں، یہ محض بعض معاویہ رضی اﷲ عنہ ہے۔ جس کے متعلق امام اہل سنت حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی ارشاد فرماتے ہیں۔
امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر طعن زنی کرے وہ جہنم کا کتاہے۔ بحوالہ شفا شریف ج1ص
اس رسم بد ِکی ایجاد کے بارے میں حضرت پیر سید قبلہ جما عت علیشاہ صاحب ؒ کے خلیفہ خاص حضرت قبلہ سید مصطفی علیشاہ کی تصدیق موجود ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ یہ نیاز سے سے پہلے1906ءکو رام پور سے امیر مینائی کے خاندان نے شروع کی (جوبغض معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میں مشہور ہے) ۔ بحوالہ جواہر المناقب
علاوه ازیں بریلوی مسلک کے عالم مفتی محمد او سعید غلام سرور قادری صاحب کی کتاب ”افضلیت سیدنا ابوبکرصدیق اکبر“ سے سنی بریلوی علما ءکے چند فتاوی بعینہ نقل کیے جاتے ہیں۔
۱۔ مشہور مناظر اسلام حضرت علامہ مولانا محمد عمر صاحب اچھروی لاہور
سیدنا ابوبکر صدیق و عمر فاروق ؓ کی خلافت حقہ کا منکر اسلام سے خارج اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو ان سے افضل سمجھنے والابے دین گمراہ شیعہ ہے اور حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان ؓ کو سب وشتم اور بکواس کرنے والا بھی اسلام سے خارج ہے۔
۲۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا قمر الدین صاحب سیالوی سجادہ نشین دربار سیال شریف
حضرت معاویہ ؓ کے مناقب مسلم الثبوت ہیں ان کی شان میں گستاخی کرنا اگر التزامی کفر نہیں تو لازمی کفر میں داخل ضرور ہے(یعنی صحابی رسول ﷺ حضرت معاویہ ؓ کی گستاخی سے کفر لازم آتا ہے) حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ یا دیگر اہل بیت ؓ سے دشمنی کی یا نہیں سب وشتم کرتے تھی یا کراتے تھے سراسر غلط ضلالت اور جہالت پر مبنی ہے۔ جو نضر بن مراحم، یونس بن خباب اور مرحوب وغیرہم جیسے رافضیوں کی روایات پر مبنی ہے فرمان ذیشان آنحضرت ﷺ ”اﷲاﷲ فی اصحابی“ کوئی مسلمان نہیں بھول سکتا۔
۳۔امام اہل سنت محدث پاکستان جناب سردار احمد صاحب قادری رضوی کے نائب، جامع المعقول والمنقول مفتی غلام رسول شیخ الحدیث جامعہ رضویہ لائلپور(فیصل آباد)
حضرت معاویہ ؓ عادل ‘ثقہ‘ اور صالح صحابی ہیں۔ سرور کائنات ﷺ کے گھر آپ کی حقیقی ہمشیرہ ام حبیبہ ؓ تھیں۔ آپ بڑے عالم اور مجتہد صحابی ہیں۔ آپ کے لئے سرور کائناتﷺ نے دعا فرمائی آپ ؓ کی شان میں گستاخی کرنا اور آپ کو برا کہنا رافضی ہے ایسا شخص جو آپ کو براکہے وہ شیعہ ہے ہرگز ہرگز سنی نہیں اس کے پےچھے ہرگز ہرگز نماز نہ پڑھی جائے اسے اہل سنت والجماعت کی مسجد میں ہرگز ہرگز امام نہ رکھا جائے۔
۴۔محقق اہل سنت مفتی احمد یار خان نعیمی گجرات
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کوحضرت ابوبکر صدیق اورفارو ق اعظمؓ سے افضل بتانے یا حضرت امیر معاویہؓ کو فاسق کہنے والا شخص بالکل بے دین اور شےعہ ہے غالباً تقیہ کر کے اہل سنت وبنا ہوا ہے ایسے شخص کو فوراً اہل سنت کی مسجد سے علیحدہ کر دیا جائے اور کوئی مسلمان اس کے پیچھے نمار نہ پڑھے۔ حوالہ کیلئے دیکھئے ابو سعید غلام سرورقادری صاحب کی کتاب( افضلیت سیدنا ابوبکر صدیق ص 155تا186 مطبوعہ مکتبہ فریدیہ ساہیوال)
حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے
امیرمعاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شان
۱۔عبد الرحمن بن ابی عمیرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے حضرت معاو یہؓ کے حق میں ارشادفرمایا کہ اے اﷲ! انہیں ہادی اور مہدی بنا اور ان کے ذریعے دوسروں کو ہدایت کر (سنن ترمذی جلد دوم ص 224)
۲۔ حضرت عمیر بن سعد ؓ کہتے ہیں حضرت معاویہ ؓ کا ذکر خیر وخوبی کے ساتھی ہی کریں کیونکہ میں نے آنحضرت ﷺ کو ان کے حق میں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اﷲ! انہیں ہدایت عطافر ما (سنن ترمذی جلد دوم ص224)
۳۔ حضرت عبد الرحمن بن ابی عمیرہؓ روایت کرتے ہیں آنحضرت ﷺ نے معاویہ کےلئے فرمایا۔ اے اﷲ ! انہیں کتاب اور حساب کاعلم سکھا اور عذاب سے محفوظ رکھ۔(کنزالعمال جلد 7ص87، البدایہ والنہایہ جلد8 120)
۴۔ ایک دفعہ حضرت معاویہؓ آنحضرت ﷺ کے ساتھ پیچھے سوار ہوئے آپ ﷺ نے ارشادفر مایا اے معاویہ آپ کے جسم کا کون سا حصہ میرے نزدیک ہے انہوں نے کہا میرا پیٹ اس پر آپ نے فرمایا اے اﷲ اسے علم اور بردباری سے بھر دے۔ (التاریخ الکبیر للامام البخاری جلد4ص180)
۵۔ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جبرائیل امین آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہا اے محمد ﷺ!معاویہؓ کو وصیت کیجئے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی کتاب کے امین ہیں اور بہت اچھے امین ہیں۔ (تطہیر الجنان از علامہ ابن حجر مکی ص13)
۶۔ آنحضرت ﷺ نے ارشادفر مایا کہ میری امت کا سب سے پہلے لشکر جو بحری جہاد کرے گا اس کےلئے جنت واجب ہو گی۔ سیدہ ام حرام ؓ عرض کیا اے اﷲ کے رسول ﷺ کیا میں اس لشکر میں شامل ہوں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو بھی اس میں شامل ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الجہاد باب ماقبل فی قتال الروم)
صلحاءامت کے ہاں سیدنا امیر معاویہؓ کا مقام
۱۔حضرت ابوالدراد ؓ نے فرمایا کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کے بعد آپ ﷺسے زیادہ مشابہت رکھنے والی نماز پڑھنے والا تمہارے امیر یعنی معاویہؓ سے زیادہ کسی کوئی نہیں دیکھا۔ (تطہیر الجنان ص24)
۲۔حضرت ابراہیم بن مسیرہ رکہتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور خلافت میں کسی کو خود کوڑے نہیں لگائے مگر ایک شخص کو جس نے حضر امیر معاویہ ؓ پر زبان دارزی کی تھی اسے تین کوڑے لگائے ( الاستیعاب مع الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد 3ص403)
۳۔حضرت عبد اﷲ بن مبارک ؒ یہ مشہور امام ‘محدث اور فقیہ ہیں اور سید امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کے مایہ ناز شاگرد ہیں۔ ان سے کسی نے دریافت کیا کہ حضرت معاویہ ؓ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز تو انہوں نے فرمایا! اﷲ کی قسم وہ مٹی جوآنحضرتﷺ کی معیت میں حضر ت معاویہ ؓ کے گھوڑے کے نتھنوں میں داخل ہوئی وہ بھی عمر بن عبد العزیز سے ہزار درجہ افضل ہے۔(تطہیر الجنان ص10,11)
۴۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ حضر شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ “ اگر میں رستے میں بیٹھ جاﺅں اور حضرت معاویہ ؓ کے گھوڑے کے سم کا غبار مجھ پر پڑے تو اس کو میں اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتاہوں” (امداد الفتاوی جلد 4ص23)
سیدنا امیر معاویہ ؓ کے امتیازی کارنامے
حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے لے کر آج تک جتنے بھی مسلمان حکمران آئیں سب سے بڑا دور حکومت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا ہے۔ امیر معاویہ ؓ5400علاقے فتح کیے۔ عمر فاروق نے 2400 علاقے فتح کیے اگر ان کی فہرست دیکھی جائے تو وہ چھوٹے ہیں لیکن معاویہ بن ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تو اپنے علاقوں میں کساریہ جیسے شہر بھی فتح کیا جس شہر کے300 سو بازار تھے۔ ایک لاکھ پولیس جس شہر میں روزانہ گشت کرتی ہو اس شہر کو معاویہ بن ابوسفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خود جاکر فتح کیا ۔ اس شہر کے چوک میں جو جامع مسجد تعمیر کی وہ لاہور کی شاہی مسجد سے 4گنا بڑی ہے وہ معاویہ بن ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تعمیر کی۔ خانہ کعبہ پر سب سے پہلے خلاف امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چڑھایا۔بچوں کا نام کمیٹیوں درج کرنے کا محکمہ معاویہ بن ابوسفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جاری کیا۔ ساڑھے سات لاکھ ایکڑ عرب کی عارضی کو پانی دے کر سر سبز وشاداب کردیا اور محمد کے مدینہ کی بستیوں میں زراعت اور باغبانی کے ایسے جوہر دکھائے جس کی مثال دنیا میں آج تک کوئی پیش نہیں کرسکا۔ جس کی حکومت شام سے لے کر چین کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھی اس جعفرائی میں رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کی کتنی بڑی خدمات سر انجام دی ۔45 ھ میں امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سنان ابن مسلما ایک صحابی رسول کو12000ہزار لشکر دے کر افغانستان کو فتح کر نے کےلئے روانہ کیا تھا ۔ یہ قابل امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا ،یہ جلال آباد امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا تھا ۔ سمر قند کو امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا تھا اور غرنی کی بستیاں بھی امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیے تھیں ۔ پشاور کا شہر بھی امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا تھا ۔ پشاور کے شہرکو سب سے پہلے بدھ مت مذہب سے آزاد کرنے معاویہ بن ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہے۔
پیارے سنی بھائیو !
خدا کےلئے اس رسم بد ِکو اپنے مبارک گھروں سے نکال پھینکو اور ایک جلیل القدر صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین کے دانستہ یا غیر دانستہ مرتکب ہو کراپنے کریم رب کے قہرو غضب کو دعوت مت دو۔اور اپنے اعمال کے ضائع کرنے کا ذریعہ نہ بناو نیز جذبہ ایمانی کے تحت اس پیغام کو گھر گھر پہنچا دو تاکہ دوسرے مسلمان بھی اس رسم شنیع سے محفوظ رہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صحابہ کرام ؓ کی سچی محبت نصیب فرمائے اور ہر قسم کی رسوم رِذیلہ سے بچائے ۔
یہ پیغام حق پڑھ کر آگے پہنچائیں یہ آپ کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ سمیت ہر صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا احترام ہر مسلمان پر فرض ہے کسی بھی صحابی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین سے انسان ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔میرے اور آپ کے آقا سید کونین حبیب کبریا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان علی شان ہے میرے صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کے بارے میں اﷲ سے ڈرو۔ان کو ملامت کا نشانہ نہ بناو۔ جوکوئی میرے صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کو گالیاں دے۔ اس پر اﷲ کی لعنت، اس پرفرشتوں کی لعنت اور تمام آدمیوں کی لعنت،نہ اس کافرض قبول نہ نفل۔ جو صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کی تعریف کرتا ہے وہ نفاق سے بری ہے اور جو صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کی بے ادبی کرتا ہے وہ بدعتی، منافق، سنت کا مخالف ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عمل قبول نہ ہوں۔یہاں تک کہ ان سب کو محبوب رکھے اور ان کی طرف دل صاف ہو۔اﷲ تعالیٰ ہم سب مومنین کو محفوظ رکھے اور ان حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالی عنہم کی محبت سے ہمارے دلوں کو بھر دے۔ آمین ثم آمین
۲۲ رجب الموجب کے کونڈے اورانکی حقیقت
یہ رسم 1906ءمیں رام پور ( یوپی بھارت) سے شروع ہوئی ۔ اس کی ابتدا کرنے والا مشہور رافضی بغض امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا لاعلاج امیر مینائی تبرائی ملعون ہے ۔ جس نے خاص طو ر پر حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بغض و عناد کی بناءپر اس رسم بد ِ کو جار ی کیا ۔ یہ رسم قبیح 22/ رجب کو پوری کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ سیدنا جعفر صادق کی نیازہے جوان کی ولادت باسعادت پر دی جاتی ہے ۔ حالانکہ 22/ رجب نہ سیدنا جعفر صادق ؒ کا یوم ولادت ہے اور نہ ہی یوم وفات ہے۔ بلکہ یہ دن خال المسلمین کاتب وحی مبین، فاتح شام و روم وافریقہ، امیر المومنین، امام المتقین سیدنا ومولانا ابوعبدالرحمن معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا یوم وفات ہے۔
اس لئے متعصب رافضی امیر مینائی نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بغض میں اس رسم کے ذریعہ سے آپ کی وفات پر خوشی منائی۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے سنی بھائی بلا تحقیق رافضی وسبائی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر اس رسم کو (جوکہ سراسر صحابی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین ہے ) اختیار کر چکے ہیں۔ خصوصاً ہماری مائیں، بہنیں اپنی کم علمی کی وجہ سے اور دیکھا دیکھی اس مرض کا زیادہ شکار ہیں۔ یاد رہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ کی یوم ولادت 8/رمضان المبارک اور وفات 15/ شعبان ہے۔ لہٰذا سیدنا جعفر صادق ؒ کی ولادت یا وفات سے اس غلط رسم کا کوئی تعلق نہیں، یہ محض بعض معاویہ رضی اﷲ عنہ ہے۔ جس کے متعلق امام اہل سنت حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی ارشاد فرماتے ہیں۔
امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر طعن زنی کرے وہ جہنم کا کتاہے۔ بحوالہ شفا شریف ج1ص
اس رسم بد ِکی ایجاد کے بارے میں حضرت پیر سید قبلہ جما عت علیشاہ صاحب ؒ کے خلیفہ خاص حضرت قبلہ سید مصطفی علیشاہ کی تصدیق موجود ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ یہ نیاز سے سے پہلے1906ءکو رام پور سے امیر مینائی کے خاندان نے شروع کی (جوبغض معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میں مشہور ہے) ۔ بحوالہ جواہر المناقب
علاوه ازیں بریلوی مسلک کے عالم مفتی محمد او سعید غلام سرور قادری صاحب کی کتاب ”افضلیت سیدنا ابوبکرصدیق اکبر“ سے سنی بریلوی علما ءکے چند فتاوی بعینہ نقل کیے جاتے ہیں۔
۱۔ مشہور مناظر اسلام حضرت علامہ مولانا محمد عمر صاحب اچھروی لاہور
سیدنا ابوبکر صدیق و عمر فاروق ؓ کی خلافت حقہ کا منکر اسلام سے خارج اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو ان سے افضل سمجھنے والابے دین گمراہ شیعہ ہے اور حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان ؓ کو سب وشتم اور بکواس کرنے والا بھی اسلام سے خارج ہے۔
۲۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا قمر الدین صاحب سیالوی سجادہ نشین دربار سیال شریف
حضرت معاویہ ؓ کے مناقب مسلم الثبوت ہیں ان کی شان میں گستاخی کرنا اگر التزامی کفر نہیں تو لازمی کفر میں داخل ضرور ہے(یعنی صحابی رسول ﷺ حضرت معاویہ ؓ کی گستاخی سے کفر لازم آتا ہے) حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ یا دیگر اہل بیت ؓ سے دشمنی کی یا نہیں سب وشتم کرتے تھی یا کراتے تھے سراسر غلط ضلالت اور جہالت پر مبنی ہے۔ جو نضر بن مراحم، یونس بن خباب اور مرحوب وغیرہم جیسے رافضیوں کی روایات پر مبنی ہے فرمان ذیشان آنحضرت ﷺ ”اﷲاﷲ فی اصحابی“ کوئی مسلمان نہیں بھول سکتا۔
۳۔امام اہل سنت محدث پاکستان جناب سردار احمد صاحب قادری رضوی کے نائب، جامع المعقول والمنقول مفتی غلام رسول شیخ الحدیث جامعہ رضویہ لائلپور(فیصل آباد)
حضرت معاویہ ؓ عادل ‘ثقہ‘ اور صالح صحابی ہیں۔ سرور کائنات ﷺ کے گھر آپ کی حقیقی ہمشیرہ ام حبیبہ ؓ تھیں۔ آپ بڑے عالم اور مجتہد صحابی ہیں۔ آپ کے لئے سرور کائناتﷺ نے دعا فرمائی آپ ؓ کی شان میں گستاخی کرنا اور آپ کو برا کہنا رافضی ہے ایسا شخص جو آپ کو براکہے وہ شیعہ ہے ہرگز ہرگز سنی نہیں اس کے پےچھے ہرگز ہرگز نماز نہ پڑھی جائے اسے اہل سنت والجماعت کی مسجد میں ہرگز ہرگز امام نہ رکھا جائے۔
۴۔محقق اہل سنت مفتی احمد یار خان نعیمی گجرات
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کوحضرت ابوبکر صدیق اورفارو ق اعظمؓ سے افضل بتانے یا حضرت امیر معاویہؓ کو فاسق کہنے والا شخص بالکل بے دین اور شےعہ ہے غالباً تقیہ کر کے اہل سنت وبنا ہوا ہے ایسے شخص کو فوراً اہل سنت کی مسجد سے علیحدہ کر دیا جائے اور کوئی مسلمان اس کے پیچھے نمار نہ پڑھے۔ حوالہ کیلئے دیکھئے ابو سعید غلام سرورقادری صاحب کی کتاب( افضلیت سیدنا ابوبکر صدیق ص 155تا186 مطبوعہ مکتبہ فریدیہ ساہیوال)
حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے
امیرمعاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شان
۱۔عبد الرحمن بن ابی عمیرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے حضرت معاو یہؓ کے حق میں ارشادفرمایا کہ اے اﷲ! انہیں ہادی اور مہدی بنا اور ان کے ذریعے دوسروں کو ہدایت کر (سنن ترمذی جلد دوم ص 224)
۲۔ حضرت عمیر بن سعد ؓ کہتے ہیں حضرت معاویہ ؓ کا ذکر خیر وخوبی کے ساتھی ہی کریں کیونکہ میں نے آنحضرت ﷺ کو ان کے حق میں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اﷲ! انہیں ہدایت عطافر ما (سنن ترمذی جلد دوم ص224)
۳۔ حضرت عبد الرحمن بن ابی عمیرہؓ روایت کرتے ہیں آنحضرت ﷺ نے معاویہ کےلئے فرمایا۔ اے اﷲ ! انہیں کتاب اور حساب کاعلم سکھا اور عذاب سے محفوظ رکھ۔(کنزالعمال جلد 7ص87، البدایہ والنہایہ جلد8 120)
۴۔ ایک دفعہ حضرت معاویہؓ آنحضرت ﷺ کے ساتھ پیچھے سوار ہوئے آپ ﷺ نے ارشادفر مایا اے معاویہ آپ کے جسم کا کون سا حصہ میرے نزدیک ہے انہوں نے کہا میرا پیٹ اس پر آپ نے فرمایا اے اﷲ اسے علم اور بردباری سے بھر دے۔ (التاریخ الکبیر للامام البخاری جلد4ص180)
۵۔ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جبرائیل امین آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہا اے محمد ﷺ!معاویہؓ کو وصیت کیجئے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی کتاب کے امین ہیں اور بہت اچھے امین ہیں۔ (تطہیر الجنان از علامہ ابن حجر مکی ص13)
۶۔ آنحضرت ﷺ نے ارشادفر مایا کہ میری امت کا سب سے پہلے لشکر جو بحری جہاد کرے گا اس کےلئے جنت واجب ہو گی۔ سیدہ ام حرام ؓ عرض کیا اے اﷲ کے رسول ﷺ کیا میں اس لشکر میں شامل ہوں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو بھی اس میں شامل ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الجہاد باب ماقبل فی قتال الروم)
صلحاءامت کے ہاں سیدنا امیر معاویہؓ کا مقام
۱۔حضرت ابوالدراد ؓ نے فرمایا کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کے بعد آپ ﷺسے زیادہ مشابہت رکھنے والی نماز پڑھنے والا تمہارے امیر یعنی معاویہؓ سے زیادہ کسی کوئی نہیں دیکھا۔ (تطہیر الجنان ص24)
۲۔حضرت ابراہیم بن مسیرہ رکہتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور خلافت میں کسی کو خود کوڑے نہیں لگائے مگر ایک شخص کو جس نے حضر امیر معاویہ ؓ پر زبان دارزی کی تھی اسے تین کوڑے لگائے ( الاستیعاب مع الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد 3ص403)
۳۔حضرت عبد اﷲ بن مبارک ؒ یہ مشہور امام ‘محدث اور فقیہ ہیں اور سید امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کے مایہ ناز شاگرد ہیں۔ ان سے کسی نے دریافت کیا کہ حضرت معاویہ ؓ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز تو انہوں نے فرمایا! اﷲ کی قسم وہ مٹی جوآنحضرتﷺ کی معیت میں حضر ت معاویہ ؓ کے گھوڑے کے نتھنوں میں داخل ہوئی وہ بھی عمر بن عبد العزیز سے ہزار درجہ افضل ہے۔(تطہیر الجنان ص10,11)
۴۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ حضر شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ “ اگر میں رستے میں بیٹھ جاﺅں اور حضرت معاویہ ؓ کے گھوڑے کے سم کا غبار مجھ پر پڑے تو اس کو میں اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتاہوں” (امداد الفتاوی جلد 4ص23)
سیدنا امیر معاویہ ؓ کے امتیازی کارنامے
حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے لے کر آج تک جتنے بھی مسلمان حکمران آئیں سب سے بڑا دور حکومت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا ہے۔ امیر معاویہ ؓ5400علاقے فتح کیے۔ عمر فاروق نے 2400 علاقے فتح کیے اگر ان کی فہرست دیکھی جائے تو وہ چھوٹے ہیں لیکن معاویہ بن ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تو اپنے علاقوں میں کساریہ جیسے شہر بھی فتح کیا جس شہر کے300 سو بازار تھے۔ ایک لاکھ پولیس جس شہر میں روزانہ گشت کرتی ہو اس شہر کو معاویہ بن ابوسفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خود جاکر فتح کیا ۔ اس شہر کے چوک میں جو جامع مسجد تعمیر کی وہ لاہور کی شاہی مسجد سے 4گنا بڑی ہے وہ معاویہ بن ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تعمیر کی۔ خانہ کعبہ پر سب سے پہلے خلاف امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چڑھایا۔بچوں کا نام کمیٹیوں درج کرنے کا محکمہ معاویہ بن ابوسفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جاری کیا۔ ساڑھے سات لاکھ ایکڑ عرب کی عارضی کو پانی دے کر سر سبز وشاداب کردیا اور محمد کے مدینہ کی بستیوں میں زراعت اور باغبانی کے ایسے جوہر دکھائے جس کی مثال دنیا میں آج تک کوئی پیش نہیں کرسکا۔ جس کی حکومت شام سے لے کر چین کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھی اس جعفرائی میں رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کی کتنی بڑی خدمات سر انجام دی ۔45 ھ میں امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سنان ابن مسلما ایک صحابی رسول کو12000ہزار لشکر دے کر افغانستان کو فتح کر نے کےلئے روانہ کیا تھا ۔ یہ قابل امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا ،یہ جلال آباد امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا تھا ۔ سمر قند کو امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا تھا اور غرنی کی بستیاں بھی امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیے تھیں ۔ پشاور کا شہر بھی امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا تھا ۔ پشاور کے شہرکو سب سے پہلے بدھ مت مذہب سے آزاد کرنے معاویہ بن ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہے۔
پیارے سنی بھائیو !
خدا کےلئے اس رسم بد ِکو اپنے مبارک گھروں سے نکال پھینکو اور ایک جلیل القدر صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین کے دانستہ یا غیر دانستہ مرتکب ہو کراپنے کریم رب کے قہرو غضب کو دعوت مت دو۔اور اپنے اعمال کے ضائع کرنے کا ذریعہ نہ بناو نیز جذبہ ایمانی کے تحت اس پیغام کو گھر گھر پہنچا دو تاکہ دوسرے مسلمان بھی اس رسم شنیع سے محفوظ رہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صحابہ کرام ؓ کی سچی محبت نصیب فرمائے اور ہر قسم کی رسوم رِذیلہ سے بچائے ۔
یہ پیغام حق پڑھ کر آگے پہنچائیں یہ آپ کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ سمیت ہر صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا احترام ہر مسلمان پر فرض ہے کسی بھی صحابی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین سے انسان ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔میرے اور آپ کے آقا سید کونین حبیب کبریا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان علی شان ہے میرے صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کے بارے میں اﷲ سے ڈرو۔ان کو ملامت کا نشانہ نہ بناو۔ جوکوئی میرے صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کو گالیاں دے۔ اس پر اﷲ کی لعنت، اس پرفرشتوں کی لعنت اور تمام آدمیوں کی لعنت،نہ اس کافرض قبول نہ نفل۔ جو صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کی تعریف کرتا ہے وہ نفاق سے بری ہے اور جو صحابہ رضی اﷲ تعالی عنہم کی بے ادبی کرتا ہے وہ بدعتی، منافق، سنت کا مخالف ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عمل قبول نہ ہوں۔یہاں تک کہ ان سب کو محبوب رکھے اور ان کی طرف دل صاف ہو۔اﷲ تعالیٰ ہم سب مومنین کو محفوظ رکھے اور ان حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالی عنہم کی محبت سے ہمارے دلوں کو بھر دے۔ آمین ثم آمین
Fazail e Amaal par Waswasa Part 5 (Hazrat Abdul Aziz Dab-baagh Rh. ka Waqiye) ka Jawaab
Fazail e Amaal par Waswasa Part 5 (Hazrat Abdul Aziz Dab-baagh Rh. ka Waqiye) ka Jawaab
Aiteraaz : Tausuf ur Rehman Sahaab ne Shaik Abdul Aziz Dab-baagh ka Waqiya par Aiteraaz kiya ke Ulama e Deoband ka Aqeeda hai ke Unke Peero ko bhi Ilm e Ghaib hai.(Nauzbillah)
Ek Dhoka : Tausuf Sahaab Ne Kaha Hai Ke
Lekin Jab Unke (Shaik Abdul Aziz Dab-baagh) Koi Quraan Padhta , Hadees E Rasool Bayaan Karta , Hadees E Qudsi Bayaan Karta , Jhooti Baat Bayaan Karta Toh Fauran Kehdete Ke
TUNE QURAAN KI AAYAT PADHI , TUNE HADEES E QUDSI PADHI , TUNE RASOOL KI HADEES PADHI AUR TUNE JHOOT BOLA , MUJHE TUMHAARE BOLNE SE PATA LAGJAATA HAI , NOOR NIKALTA HAI.
Dekhiye Tausuf Sahaab Ki Video Clip Fazail E Amaal Ki Haqiqat : 17 : 50
Jabke Qatan Aisi Ibaarat Fazail E Amaal Me Maujood Nahi Hai :
Puri Ibaarat Mulaaheza Farmaane Se Pehle , Kuch Hadees Mulaaheza Farmaaye Jo Ke Khud Hazrat Shaik Ul Hadees Rh. Ne Fazail E Amaal Ke Fazail E Zikr Me Naql Ki Hai :
Hazrat Abu Hurairah Rdh. Aur Hazrat Abu Saeed Khudri Rdh. Dono Hazraat Is Baat Ki Gawaahi Dete Hai Ke Nabi E Karim SAW Ne Irshaad Farmaaya : Jo Jamaat Allah Tala Ka Zikr Me Mashool Ho Farishte Us Jamaat Ko Ghair Lete Hai , Rehmat Unko Dhaap Leti Hai , Sakeena Unpar Naazil Hota Hai Aur Allah Tala Unka Tazkirah Farishto Ki Majaalis Me Farmaate Hai.
(Saheeh Muslim : Raqm No 6855)
Scan Page :
Hazrat Abu Darda Rdh. Riwayat Karte Hai Ke Rasoolullah SAW Ne Irshaad Farmaaya : Qiyaamat Ke Din Allah Tala Baaz Logo Ka Hashr Is Tarah Farmaayege Ke Unke Chehro Par Nur Chamta Huwa Hoga , Wo Motiyo Ke Mimbero Par Hoge.Log Unpar Rashk Karte Hoge.Wo Ambiyaa Aur Aur Shuhaada Nahi Hoge.
Ek Dihaat Ke Rehne Waale (Sahabi Rdh) Ne Ghutno Ke Bal Baith Kar Arz Kiya : Ya Rasoolullah SAW ! Unka Haal Bayaan Kijiye Ke Hum Unko Pehchaan Le.
Nabi E Karim SAW Ne Irshaad Farmaay : Wo Log Hoga Jo Allah Tala Ke Muhabbat Me Mukhtalif Khandaano Se Mukhtalif Jango Se Aakar Ek Jagah Aakar Jama’a Hoge Aur Allah Tala Ke Zikr Me Mashool Hoge. (Majmua Az Zawaid : Jild 10 : Safa 57 , 16770)
Scan Page :
Is Riwayat Ko Naql Karne Ke Baad Imam Haismi Rh. Farmaate Hai Ke Iski Sanad Hasan Hai.
Ek aur hadees me waarid hai ke jis ghar me allah ka zikr kiya jaata ho wo aasmaan waalo ke liye aisa chamakta hai jaise zameen waalo ke liye sitaare chamakte hai.
Wazaahat : Gharz in tamaam ahadees se maloom hota hai ke Allah tala ke zikr ka noor maujood hota hai aur sakeena naazil hoti hai.
Balke Saheeh Bukhari me Riwayat hai ke
Hazrat Baraa Bin Aazib Rdh. Farmaate hai ke ek shaks suratul kahf ki tilaawat kar raha tha , Uske paas ek Ghoda (horse) tha jo bandha huwa tha. Us ghode ko ek badal ne dhaab liya.Jab usko Badal ne Dhaaba Toh Ghode ne Bidakna Shuru kardiya.
Jab Subah huwi toh wo shaks nabi e karim SAW ki khidmat me haazir huwa aur Yeh Waqia Nabi e Karim SAW ki Khidmat me Arz kiya.
Yeh wo Sakeena aur Allah ki Khaas Rehmat hai jo Quraan e Karim ki Tilaawat ke waqt Naazil huwi.(Saheeh Bukhari : Hadees no 5011)
In Tamaam Ahadees se maloom huwa ke Allah ke Zikr se Sakeena Naazil hoti hai aur Uske Kalaam ka noor hota hai.
Aur Yeh Noor Allah kisi ko dekha de yeh uski marzi par hai.
Ab Puri Ibaarat Mulaaheza Farmaaye :
Shaik Abdul Aziz Dabaagh Abhi Qareeb Hi Zamaane Me Buzurg Guzre Hai Jo Bikul Ummi Thi Magar Quraan E Shareef Ki Aayat , Hadees E Qudsi , Hadees E Nabawi Aur Mauzi Hadees Ko Alaaheda Alaaheda Bataadete The Aur Kehte The Ke Mutakallim Ki Zubaan Se Jab Lafz Nikalte Hai Toh Un Alfaaz Ke Anwaar Se Maloom Hojaata Hai Ke Kis Ka Kalaam Hai Ke Allah Paak Ke Kalaam Ka Not Alaahida Hai Aur Huzur SAW Ke Kalaam Ka Noor Dusra Hai Aur Dusra Kaamo Me Dono Noor Nahi Hote The.
(Fazail E Amaal : Jild 1 : Fazail E Zikr : Safa 335)
Dekhiye ! Hazrat Shaik Ul Hadees Rh. Ne Pehle Ahadees Naql Ki Hai Aur Uske Zail Me Is Waqie Ko Zikr Kiya. Aur Is Tarteeb Se Padhne Par Koi Ishkaal Paida Nahi Huwa Lekin Ghair Muqallid Tausuf Ur Sahaab Ne In Un Hadees Ko Chupaaya Aur Naql Na Kiya Taake Logo Me Is Waqiye Ki Ghalat Ta’aweel Ki Aur Khaa-Ma-Kha Hazrat Abdul Aziz Dabaagh Rh. Aur Hazrat Shaik Ul Hadees Rh. Ki Zaat Par Hamla Kiya Jo Ke Intehaai Parle Darje Ki Himaaqat Aur Jahalat Hai.
Mumkin ho ke Koi Yaha Kahe ke Quran ka noor Hazrat Abdul Azizi Rh. Ko Kaise Dikhaayi diya.
Toh Jawaab Arz Hai Ke Yeh Unke Upar Kashf ke Zariye se Zaahir Kiya Gaya hai.
Jo Ke Quran Se Saabit Hai.
Aur Kashf aur Ilm e Ghaib ko Ek Bataana Apne Jehalaat ka Saboot Dena hai.
Kyunke Kashf aur Cheez hai aur Karamat aur hai…Jaisa ke Humne Wazaahat kardi hai.
Sawaal no 1 :
Mashoor Ghair Muqallid Aalim Abdul Majeed Sohadrawi Sahaab Qazi Muhammed Sulaiman Mansoorpuri Ghair Muqallid Ka Waqia Bayaan Karte Huwe Likhte Hai Ke
Hazrat Qazi Sahaab Jab Bhi Lahore Tashreef Laate Toh Maal Road Par Hayaat Brothers Ke Ha Qiyaam Farmaaya Karte The Fazl Kareem Bin Haaji Hayaat Muhammed Maalik Khurram Ka Bayaan Hai Ke Jis Makaan Par Tehra Karte The Uske Qareeb Ek Khanqah Thi Jo Ujdi Huwi Thi.
Ek Din Aapne Mujh Se Pucha Ke Kya Yaha Koi Qabar Hai Maine Arz Kiya “Ji Ha “
Aap Ne Kaha Aaj Raat Khaab Me Hume Wo Buzurg Mile Aur Kaha Ke Qazi Ji Aap Itni Baar Yaha Tashreef Laaye Magar Hume Ek Baar Bhi Nahi Mile.
Qazi Sahaab Ne Yeh Bhi Farmaaya Wo Bahut Naik Aur Saaleh Aadmi The Falah Jagah Ke Rehne Waale The.Edhar Se Guzar Rahe The Ke Inteqaal Hogaya.
Miya Fazl Kareem Kehte Hai Ke Uske Baad Jab Maine Uski Tehqeeq Ki Toh Wo Baatein Waisi Hi Saabit Huwe Jo Qazi Sahaab Ne Bayaan Farmaayi Thi Yaha Tak Ke Unka Naam Aur Pata Bhi Qazi Sahaab Ne Bata Diya Tha. (Karaamaat E Ahlehadees : Safa 83-84)
Scan Page :
Ghaur Farmaaye ! Qazi Sahaab ko Kaise Maloom huwa ke Us Marne Waale ka Naam , Pata aur Uska Kirdaar.
Mazeed Us Marhoom ko yeh Kaise Maloom huwe ke Qazi Sahaab Us Raaste se Kai Baar Guzre hai.
Tausif ur Rehman Sahaab ! Ab Kholiye Zubaan Apne Akaabir par.
Sawaal no 2 :
Imam Ibn Qayyim Rh. Farmaate Hai Ke :
Jab Imam Ibn Taimiya Rh. Ke Khilaaf Pure Mahool Ko Garam Kardiya Gaya Aur Aap Rh. Ko Shaheed Karne Ke Iraade Se Misr Bulaaya Gaya , Toh Muta’alliqeen Aur Muta’allimeen Aap Ko Rukhsat Karne Ke Liye Ikhatte Huwe Aur Arz Kiya : Musalsal Khutoot Aarahe Hai Ke Puri Qaum Aap Rh. Ke Qatal Ke Darpe Hai , Aap Rh. Ne Farmaaya :
“ALLAH KI QASAM WO MUJHE KABHI QATAL NAHI KARSAKGE”.
Logo Ne Pucha : Toh Kya Aap Rh. Qaid Karliye Jaayege ? Aap Rh. Ne Jawaab Diya : Ha ! Aur Mera Qaid Ka Zamaana Taweel Hoga , Phir Mai Reha Hojaoga Aur Alal Aailaan Puri Jurat Ke Saat Quran Wa Hades Ki Ta’alimaat Pesh Karunga.
Imam Ibn Qayyim Rh. Farmaate Hai Ke Maine Apne Kaano Se Aap Rh. Ke Yeh Alfaaz Sune.
(Madaarijus Salekeen Li Ibn Ul Qayyim : Jild 2 : Safa 458)
Scan Page :
Aur Taarekh Gawaah Ke Jaisa Ibn Taimiyah Rh. Ne Kaha Waisa hi huwa ke Aap Qaid Karliya aur Phir Aap Quran wa hades ki ta’alimaat ko pesh kiya.
Ab Tausif Sahaab ! Sawaal yeh hai ke Imam Ibn Taimiya Rh. Ka kehna ke
“ALLAH KI QASAM WO MUJHE KABHI QATAL NAHI KARSAKGE”.
Aur aage jo inhone baatein bayaan ki hai.
yeh unhe kaise maloom huwi.
Ba-qaul e aapke Kya yeh ilm e ghaib nahi hai ?? balke Kitna Pakka Ilm e Ghaib hai ke Allah ki Qasam Khaa kar Kehrahe hai ke Mujhe Kabhi Qatal nahi Karsakte.
Aur jo Jumle Aapne Kaha ke “ Fazail e Amaal ki Dusri Badi Gumrahi Ilm e ghaib Jo Allah Akele ki Sift hai , Yeh Ilm e ghaib Hamaare Peero ko bhi hai”.
Tausif Sahaab , Agar Aap Haq ke Numainde hai Toh Saudiya ki Sar-Zameen par Baith Kar Yeh Fatwa Lagao ke Ibn ul Qayyim Rh. Ki Kitaab MADAARIJUS SALEKEEN par , ke Is Kitaab ne Ummat ko Ta’aleem Di ke Hamaare Peero ko bhi Ilm e ghaib hai.
Subscribe to:
Posts (Atom)